اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اِس مناظرے کو ذکر کیا ہے ،اخیر کے (۱) رسول اللہﷺ کا بعض صحابہ کے ساتھ خصوصی معاملہ تھا، مثلا: جب حضرت جریر بن عبد اللہ بجلیؓ آتے تو آپ مسکراتے، اسی طرح حضرت ابوذرؓ سے خصوصی معاملہ تھا کہ ہر ملاقات پر ان سے مصافحہ کرتے، تحفۃ القاری:۲؍۶۸۔ (۲) الأبواب: ۶؍۳۵۸۔ الفاظ ہیں: فقال سفیان: ما نخصہ بغیر دلیل، فسکت مالک،کہ ہم بلا دلیل اِسے خاص واقعہ نہیں کہہ سکتے تو امام مالکؒ نے کوئی جواب نہیں دیا؛ بلکہ خاموش رہے، آگے تو مسئلہ بے غبار ہوجاتا ہے، قال القاضي عیاض: وسکوت مالک دلیل لتسلیمہ، قولَ سفیان وموافقتہ وہو الصواب۔(۱ ) یعنی قاضی عیاضؒ جو خود مالکی المذہب ہیں اُن کا کہنا ہے: کہ امام مالکؒ کی خاموشی، حضرت سفیانؒ کی بات کو قبول کرنے اور تسلیم کرنے کے مترادف ہے، اور ابن بطالؒ نے تو تقبیل کے بارے میں مسئلہ بالکل صاف کردیا ہے، لکھتے ہیں: قال الأبہري: إنما کرہہا مالک إذا کانت علی وجہ التکبر والتعظیم لمن فعل ذلک بہ، وأما إذا قبل إنسان ید إنسان أو وجہہ أو شیئاً من بدنہ مالم یکن عورۃ علی وجہ القربۃ إلی اللہ لدینہ أو لعلمہ أو لشرفہ؛ فإن ذلک جائز، وتقبیل ید النبيﷺ تقرب إلی اللہ۔ یعنی ہاتھ وغیرہ کو بوسہ دینا دینداری، شرافت اور علم کی وجہ سے جائز ہے، امام مالکؒ اسے مکروہ نہیں کہتے، ایسا بوسہ مکروہ ہے جو غیر محل میں ہو اور تقرب الی اللہ کے طور پر نہ ہو؛ بلکہ تکبر کے طور پر ہو۔(شرح ابن بطال: ۷؍۴۹) (۵) حضرت شعبیؒ کہتے ہیں: وإذا جاء أحدہم من سفر، عانق صاحبہ کوئی صحابی جب کسی سفر سے واپس آتے تھے تو اپنے دوست واحباب سے معانقہ کرتے تھے(۲) اور حضرت سلمانؓ(کسی سفر سے آئے) پس مسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابو الدرداءؓ اُن کی جانب اٹھے؛ چناں چہ اُن سے چمٹ گئے(گلے ملے) عمر بن ذرؒ کاکہنا ہے : میں جب بھی عطا بن ابی رباحؒ کو رخصت کرتاتھا تو گلے ملتے تھے۔(شرح السنہ:۱۲؍۲۹۲) (۶) عن عقبۃ بن أبي عثمان أن عمر اعتنق حذیفۃ (۷) عن أبي بَلْجٍ قال: رأیت عمروبن میمون والأسود بن یزید التقیا واعتنق کل منہما صاحبہ۔(المصنف:۶؍۱۳۹) (۱) شرح النووی:۸؍۲۰۸ ۔ (۲) شعب الایمان :۸۹۵۸۔ خلاصہ: اِن تمام روایات سے معلوم ہوا کہ طویل فصل کے بعد معانقہ کی مشروعیت ثابت ہے، صرف ایک روایت ایسی گذری ہے جس سے ممانعت مفہوم ہورہی تھی؛ چناں چہ اس کی تاویل وتوجیہ گذر چکی ہے، امام مالکؒ کا اختلاف تھا، اُن سے بھی رجوع ثابت ہے، اور امام صاحبؒ اور امام محمدؒ جو ممانعت کے قائل ہیں وہ ایک مخصوص حالت میں۔ معانقہ وتقبیل کی روح معانقہ انتہائی درجہ کی محبت ہے، اور پاک محبت جسے ’’حب فی اللہ‘‘ کہا جاتا ہے، کا جذبہ معانقے کے اندر روح کی حیثیت رکھتا ہے؛ لہٰذا غیر محرم سے معانقہ یا نفسانی جذبہ کے تحت شوہر بیوی کے سواکسی اور سے معانقہ قطعاً حرام ہے،اِس کوحدیث میں ’’مکامعہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، حضرت ابو ریحانہؓ سے مروی ہے: کہ حضورﷺ اس بات سے منع فرماتے تھے کہ مرد مرد سے یا عورت عورت سے اس