اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگا وہ کبھی اِس بات کو گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ بڑے سے کہے (یا مجبور کرے) کہ آپ ہدیہ قبول کرنے کے لیے میرے گھر آئیں؛ بلکہ وہ چاہے گا کہ میں خود جا کر اُس کو ہدیہ پیش کروں یا کسی اپنے نمائندے کو بھیجے گا کہ وہ ادب واحترام کے ساتھ اُس کی خدمت میں یہ ہدیہ پہنچا دے؛ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے یہی نظام بنایا ہے کہ کوئی روضہ پر جا کر سلام کا ہدیہ پیش کرے تو حضورﷺ خود وہ ہدیہ قبول فرماتے ہیں اور اگر وہ نہ جاسکا اور اُسے ہدیہ بھیجنا ہے تو نمائندے کے طورپر فرشتے مقرر ہیں۔(اصلاحی خطبات:۶؍۹۵) حقیقتِ قیام مجلس حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں: میں کھڑے ہونے کو فی نفسہ منع نہیں کرتا؛ لیکن یہ بھی تو سمجھو کہ اس کی حقیقت کیا ہے…یہ ایک وجد ہے اور وجدہوتا ہے واردات پر، بغیر اس کے وجد کی صورت بنانا نہایت درجہ تصنُّع ہے؛ ا گر کوئی شخص وارد کے غلبہ سے مُضطَر ہوجاوے تو اس کو جائز ہے؛ مگر یاد رہے کہ وہ اضطرار کسی خاص مضمون کے ساتھ مخصوص نہ ہوگا۔ قیام کی ابتداء : ابتداء اِس کی اِس طرح ہوئی کہ ایک شخص مضطر ہو کر کھڑا ہوگیا ، اُس کی حالت کی تائید میں اور اُس حالت مستحسنہ کو باقی رکھنے کے واسطے حاضر ینِ مجلس بھی کھڑے ہوگئے اور اِس کو علامہ غزالیؒ نے لکھا ہے :کہ اگر ایک شخص وجد سے کھڑا ہو جائے تو اُس کے ساتھ سب کو کھڑا ہونا چاہیے؛ کیوں کہ اِس میں تانیس اور اُس کی حالت کا اِبقا ہے؛ لیکن مجلس بھر میں اول جو شخص کھڑا ہوگا، اُس کو ہر گز جائز نہیں کہ وہ مَکر کرے، غرض قیام کی ابتداء یوں ہوئی پھر بلا وجہ اِس کو رسم کرلیا او رہم اِس رسم ہی کو منع کرتے ہیں، حالت کو منع نہیں کرتے؛ کیوں کہ حالت تو غیر اختیاری ہے، مگر ایسے کتنے ہیں؟ آپ سو پچاس مولویوں کو دیکھیے تو وہاں ایک بھی ایسا نہ ملے گا اور اگر ہوں گے بھی تو بمشکل ایک دو ،باقی سب خشک۔ بے بنیاد اعتقاد میں توسع کر کے کہتا ہوں کہ اگر یہ فعل صرف رسم کے مرتبہ میں رہتا تب بھی خیر ممکن تھا کہ اس پر خاموشی کی جاتی؛ مگر غضب یہ ہوا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خود حضورﷺ تشریف لاتے ہیں؛ حالاں کہ یہ بے دلیل ہے؛ اگر دلیل میں کسی کا کشف پیش کیاجاوے تو اول ممکن ہے کہ کشف صحیح نہ ہو، دوسرے اگر صحیح بھی ہو تو اِس کا خلاصہ یہ ہوگا کہ کسی مجلس خا ص میں کسی صاحبِ کشف کو ایسا مکشوف ہو تو اس سے دوام پر کیوں کر استدلال ہوسکتا ہے، اور یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جب ایسا ہوگا تو ایسابھی ہوگا…… لزوم اور دوام کے لیے تو کسی مستقل دلیل کی ضرورت ہے۔(وإذ لیس فلیس)تو یہ اعتقاد بے بنیاد ہوا جس کی اصلاح واجب ہوئی۔(خطبات حکیم الامت:۵؍۱۲۶) ایک مرتبہ کچھ لوگ بآواز بلند صلاۃ وسلام پڑھ رہے تھے تو ابن مسعودؓ نے ان کو مسجد سے باہر نکال دیا تھا، شامی میں بحوالہ بزازیہ منقول ہے: صحیح عن ابن مسعودؓ أنہ أخرج جماعۃ من المسجد یہللون ویصلون علی النبيﷺ جھراً وقال لہم: ما أراکم إلا مبتدعین۔(رد المحتار:۶؍۳۹۸،فصل فی البیع) سلام کے الفاظ جو مخصوص ہوتے ہیں، اِس کا ثبوت بھی نہیں ہے؛ بلکہ