اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حَسَنَۃً۔(البقرۃ: ۲۰۱) أتم معنی من أن یقال حسنات۔ دیکھیے ان تمام مثالوں میں مفرد کا استعمال، جمع کے استعمال سے زیادہ اہم اور زیادہ معانی کا حامل ہے۔ اور رہ گئی بات برکت کے جمع لانے کی تواِس کی حکمت یہ ہے کہ ’’وبرکاتہ‘‘ سے خیر وبھلائی کی کثرت اور منفعت کی پائیداری کی جانب اشارہ ہے، یعنی خدا تعالیٰ سے ایسی برکت کی دعا کی جارہی ہے کہ برکت کا ایک فرد ختم ہوجائے تو فوری دوسرا فرد اُس کی جگہ لے لے اور یہ سلسلہ چلتا رہے، تھمے نہیں، برکت کی بارش برستی رہے؛لہٰذا یہاں جمع کا استعمال قرینِ قیاس ہے؛چناں چہ قرآن سے اِس حکمت کی تائید ہوتی ہے، ارشاد ہے: رَحْمَۃُ اللّہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْْکُمْ أَہْلَ الْبَیْْتِ۔(۱) دیکھیے رحمت مفرد اور برکت جمع مستعمل ہے، دوسری مثال تشہد میں پڑھی جانے والی تحیات ہے، السلام علیکم أیہا النبي ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ غور کریں سلام اور رحمت مفرد ہیں جب کہ برکات جمع ہے۔ (بدائع الفوائد: ۲؍۱۸۳) رحمت کی اضافت کی تحقیق رحمۃ اللہ یہ مرکب اضافی ہے، یہاں اضافت میں دو ا حتمال ہیں: أحدہا مضاف إلیہ إضافۃ مفعول إلی فاعلہ، یعنی رحمت مصدر جو حقیقت میں مفعول ہے، اُس کی اضافت اللہ کی طرف ہے جو کہ فاعل ہے ، یعنی اللہ رحم کرنے والے ہیں یعنی اے اللہ رحم فرمائیے، جیسے اللہ تعالیٰ نے جنت کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’فقال للجنۃ إنما أنت رحمتي أرحم بک من أشاء۔(۲) أنت رحمتي میں رحمت مخلوق ہے جس کی اضافت خالق کی طرف کی گئی ہے، دوسرا احتمال یہ ہے کہ رحمت صفت ہے، اس کی اضافت موصوف کی طرف کی گئی ہے، یعنی اللہ صفت رحمت (۱) ہود:۷۲۔ (۲) مسلم:۲۸۴۶، باب النار یدخلہا الجبارون۔ سے متصف ہیں، والثاني مضاف إلیہ إضافۃ صفۃ إلی الموصوف بہا۔ (بدائع الفوائد: ۲؍۱۸۳) برکت کی اضافت کی تحقیق مذکورہ بالا تحقیق جو رحمت کے سلسلے میں پیش کی گئی ہے، اور وہاں اضافت میں دو احتمال کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہی دونوں احتمال یہاں بھی ہیں یعنی برکت جو مفعول ہے اُس کی اضافت فاعل کی طرف ہے؛ کیوں کہ برکت اللہ کا ایک فعل ہے، اور اللہ جس پر برکت نازل فرماتے ہیں وہ مبارک (اسم مفعول) ہوتا ہے؛ چناں چہ اِسی معنی کے اعتبار سے برکت کی دعائیں منقول ہیں مثلا: اللہم بارک لنا في رجب وشعبان(۱) اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہے، یعنی برکت ایک وصف ہے جس سے اللہ تعالیٰ متصف ہے، پہلی صورت میں برکت کا فعل بارک مبارکۃ استعمال ہوتا ہے اور دوسری صورت میں برکت کا فعل تبارک استعمال ہوتا ہے، دونوں میں فرق یہ ہے کہ بارک فعل ہے، بندوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے اور تبارک جو صفت ہے یہ صرف خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور صرف تبارک ہی استعمال ہوتا ہے، دوسرے صیغے مستعمل نہیں ہوتے؛ چناں چہ قرآن میں ہے: فَتَبَارَکَ اللَّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْن۔( الاعراف: ۵۴) تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ۔(الملک:۱) تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔ (المؤمون: ۱۴) وغیرہ۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۸۵)