اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے ایک آسان طریقہ بتایا کہ سلام کے ساتھ ساتھ موقع ہو تو ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو، یہ ارشاد نبوی ہے، یقین واخلاص کے ساتھ عمل کرنے سے کینہ وحسد ضرور دور ہوں گے، ہماری نظر غلط ہوسکتی ہے، حضورﷺ کی خبر غلط نہیں ہوسکتی۔(جب کینہ ختم ہوگا تو محبت کے پھول کھلیں گے، جس کی عطر بیزی سے ایک صالح واسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا، اور دنیا جنت کا نمونہ ہوگی۔(۱) سلام ومصافحہ مسکرا کر کیجیے حضرت براء ابن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: بلا شبہ جب دو مسلمانوں کی ملاقات ہوتی ہے اور دونوں (سلام کے بعد) مصافحہ کرتے ہیں اور اُن میں سے ہر ایک اپنے دوست کی خاطر مسکراتا ہے اور دونوں یہ عمل صرف اللہ کی رضا کے واسطے کرتے ہیں تو دونوں کے الگ ہونے سے پہلے،دونوں کو بخش دیا جاتا ہے۔(الترغیب:۳؍۴۳۲) ویستحب مع المصافحۃ، البشاشۃ بالوجہ۔(الأذکار،ص:۳۰۴) تشریح: اس روایت میں دو باتیں بطور خاص ذکر کی گئیں ہیں۔ (۱) مصافحہ کے وقت صرف رسمی ہاتھ نہ ملیں؛ بلکہ دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار ہوں، ایسے ملیں کہ دونوں کا یہ احساس ہوکہ یہ شخص مجھ سے مل کر بہت شاداں وفرحاں ہے، سلام ومصافحہ کا مقصد اظہارِ محبت ہے، مسکراہٹ اظہارِ محبت کی ایک بڑی علامت ہے، مومن کے دل کو خوش کردیناصدقہ کا ثواب رکھتا ہے۔ (۲) دوسری بات یہ کہ مصافحہ میں اخلاص وخلوص کی آمیزش ضروری ہے، اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ سلام و مصافحہ اِس نیت سے کرے کہ یہ حبیب خدا ﷺ کا ارشاد وعمل ہے اور اُن کے ارشاد کی تعمیل، در حقیقت ارشادِ خداوندی کی تعمیل ہے، رسمی طور سے مصافحہ اخلاص کے منافی ہے، دباؤ میں مصافحہ یا زبردستی مصافحہ یاعرض وغرض میں مصافحہ، مفادِ دنیا کے لیے تو ہوسکتا ہے، مفادِ آخرت کی لیے نہیں، عقل مند وہ ہے جو مفادِ آخرت کو سامنے رکھ کر ہر کام انجام دے، اخلاص وللہیت اِسی کو کہتے ہیں۔ (۱) عطاء خراسانیؒ کی حدیث کے الفاظ ہیں، تصافحوا یذہب الغل: علامہ باجیؒ نے تصافحوا کا ایک دوسرا مطلب بھی بیان کیا ہے: مصافحہ صفح سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں معاف کرنا، چشم پوشی سے کام لینا؛ لہٰذا مطلب ہواکہ ایک مومن جب دوسرے مومن کو معاف کردیتا ہے، چشم پوشی سے کام لیتا ہے تو دلوں سے نفرت وحسد اور کینہ ختم ہوجاتے ہیں،المنتقٰی:۷؍۲۱۶۔ مصافحہ کرنے کے چند اہم نبوی آداب حضرت انسؓ سے مروی: ہے کہ حضورﷺ سے کوئی شخص ملاقات کرتا تو آپ اُس سے مصافحہ فرمایا کرتے تھے، تو اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے اُس وقت تک نہیں کھینچتے تھے ؛تا آں کہ وہ شخص خود ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیتا، اور اپنا چہرہ اُس وقت تک نہیں پھیرتے تھے کہ وہ خود ہی پھیر لیتا اور آپ اپنے کسی ہم نشیں کے سامنے اپنے دونوں گھٹنوں کو بڑھاتے ہوئے(پھیلاتے ہوئے) نہیں دیکھیے گئے۔(ترمذی: ۲۴۸۷، أبواب الرقائق)