اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اپنے دو ہاتھ بڑھا دئیے تھے، اور لوگ تھے کہ مشتاقانہ بڑھ بڑھ کر چوم رہے تھے اور پروانہ وار ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے تھے، ایسے موقع پرحضرت پر ایک عجیب حالت ِانکسار اور تواضع طاری ہوجاتی ہے، جودیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، حضرت دورانِ مصافحہ میں ہر شخص کی طرف نظرِ توجہ بھی ڈالتے جاتے ہیں؛ جیسا کہ دیکھنے والے پر مخفی نہیں رہتا؛ غرض عجیب دل فریب منظرہوتا ہے، اور اس وقت حضرت پر ایک عجیب شانِ محبوبیت رہتی ہے۔ ختم شد، (خطبات حکیم الامت:۳۱؍۴۰۰) تعظیم وتکریم میں اعتدال مناسب ہے حضرت تھانویؒ کی ایک تقریر ہے، جو سرائے میر(اعظم گڑھ) کے اسٹیشن پر ۲۸؍صفر ۳۹ھ دو شنبہ ایک بجے شب ہوئی تھی؛ جب کہ مصافحہ میں لوگوں نے بہت تنگ کیا، اسٹیشن پر یہ حالت تھی کہ پلیٹ فارم پر پہنچنا مشکل ہوگیا اور دن بھر قصبہ سرائے میر میں بھی یہی ہواتھا کہ ہر نقل وحرکت کے بعد جدید مصافحہ کرتے تھے؛ حتی کہ استنجے کو جاتے وقت بھی مصافحہ کرتے اور بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد پھر مصافحہ اور منع کرنے پر بھی نہ مانتے اور کپڑے اور ہاتھ پکڑ پکڑ کر مصافحہ کے لیے کھینچتے، اسٹیشن پر فرمایا تھا کہ تھانہ بھون کی ایک حکایت سن لو۔ ایک وقت میں چند شریروں کی کمیٹی قائم تھی، وہ شہر کے انتظامات میں بھی دخل دیتے تھے، اتفاق سے تھانہ بھون میں ایک میاں جی تشریف لائے؛ جو کہ بہت دیندار شخص تھے اُن کے آنے سے پہلے ایک میاں جی تھے، اُن کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر لوگ انہیں ترجیح دیں؛ اِس لیے انہوں نے اُن لڑکوں کو ایک عرضی لکھی: کہ اِن میاں جی کے رہنے سے مجھے اپنے نقصان کا اندیشہ ہے، اِن کے یہاں سے نکالنے کا انتظام کردیا جائے، جب وہ عرضی پہنچی تو ایک لڑکے نے کہا: اِس کا انتظام میں کروں گا؛ پس وہ لڑکا اپنے گھر آیا اور اپنی ماں سے کہا: کہ میرے لیے دو روغنی روٹیاں پکا دو، آج میں دوپہر میں نہیں آؤں گا، مجھے کچھ کام ہے؛ پس آپ روٹیوں کو باندھ کر وہیں پہنچے، جہاں وہ نئے میاں جی تھے، وہ بے چارے اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے جب وہ نماز سے فارغ ہوکر چلے تو آپ نے اُن کے سامنے جا کر سلام کیا انہوں نے جواب دیا، آپ نے دو قدم کے بعد سلام کیا انہوں نے دوبارہ بھی جواب دیا، چار قدم کے بعد پھر تیسری مرتبہ سلام کیا، اب وہ مُتغیرہوئے کہ یہ قدم قدم پر سلام کیسا؟ اُس نے جب دیکھا کہ یہ چِڑنے لگے پھر تو سلام کا تار باندھ دیا، اب وہ بے چارے بہت گھبرائے، ارادہ کیا کہ جس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں چلے جائیں، اُس نے ہاتھ پکڑ لیا کہ کہاں چلے؟ میں تو سنت ادا کرتا ہوں اورآپ واجب کے ادا کرنے میں بھی سُستی کرتے ہیں؛ پس زبردستی گھر میں جانے سے روک دیا، جب کھانے کا وقت آیا اور انہوں نے اُس وقت جانا چاہا، اُس نے روٹیاں سامنے رکھ دیں کہ کھانا یہاں کھا لیجیے، دوپہر میں سنت ادا کریں گے، وہ بے چارے ایسے گھبرائے کہ بستی چھوڑ کر بھاگ گئے…مسکرا کر (حضرتؒ نے) فرمایا: یہ بار بار مصافحہ کرنااُن میاں جی کی طرح سے میرے بھی نکالنے کی ترکیب ہے، صاحبو! میں ویسے ہی نکل جاؤں گا ترکیبوں کی کیا ضرورت ہے؟ مصافحہ مُتممِ سلام ہے