اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں یا کسی حاجتِ طبعیہ میں، تینوں صورتوں میں منع کیا ہے: اول میں اہانت کے لیے، دوسری اور تیسری صورت میں حرج کی وجہ سے۔(اسلامی تہذیب: ۶۴) اِس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر ذیل کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں: مسجد میں سلام کرنا مسجد حق تعالیٰ کی عبادت کی جگہ ہے، مُناجات ویکسوئی کا مقام ہے، دل دنیا سے کاٹ کر، اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ کرنے کا خصوصی مرکز ہے؛ لہٰذا ایسا کوئی طریقہ جو یکسوئی او رمناجات میں خلل کا ذریعہ ہو اُسے ممنوع ہونا چاہیے، ایسا عمل جونمازیوں کے بے قراری اور بے توجہی کا سبب ہو اُسے مکروہ ہونا چاہیے؛ چناں چہ فقہاء احناف نے اِسی علت کے پیش نظر کہا: کہ مسجد میں بلند آواز سے سلام کرنا مکروہ ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: جو لوگ مسجد میں پڑھنے، تسبیح وذکر کرنے کے لیے یا نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوں، وہ ملاقات کرنے والوں کے لیے نہیں بیٹھے ہیں؛اس لیے یہ سلام کرنے کا موقع نہیں ہے؛ چناں چہ انہیں سلام نہ کیا جائے، اور اگر آنے والے نے سلام کردیا تواُس کے سلام کا جواب نہ دینا درست ہے۔(ہندیہ: ۵؍۳۲۵) اور سلام کا یہ مکروہ ہونا اُس وقت ہے؛ جب کہ سارے لوگ نماز میں مشغول ہیں؛ لیکن اگر کچھ لوگ تو سُنن ونوافل وغیرہ میں مشغول ہیں اور کچھ لوگ جماعت کے انتظار میں بیٹھے ہیں تو سلام کرنے اور نہ کرنے: دونوں کا اختیار ہے، اگر سلام نہ کرے تو تارکِ سنت نہیں کہلائے گا۔ إن دخل مسجداً وبعض القوم في الصلاۃ وبعضہم لم یکونوا فیہا، یُسلم و إن لم یسلم لم یکن تارکا للسنۃ۔ (رد المحتار: ۹؍۵۹۲) ترمذی نے باب: کیف السلام کا باندھا ہے اور اُس باب میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے، جس کا مضمون ہے کہ حضورﷺ رات کو گھر تشریف لائے تو اس طرح سلام کیا کہ سونے والے بیدار نہ ہوجائیں۔(رقم: ۲۷۲۱) اس باب کی تشریح میں مفتی سعید احمد صاحب لکھتے ہیں: یہی حکم اُس وقت ہے؛ جب کہ کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی خالی ہو تو اِس طرح سلام کرے کہ نمازی کو تشویش نہ ہو۔(تحفۃ الالمعی: ۶؍۴۹۴) فتاویٰ محمودیہ میں ہے: جب لوگ سنن ونوافل یا اذکار میں مشغول ہوں تو جاتے وقت سلام کرنا مکروہ ہے، لوگوں کو خلل ہوگا۔(محمودیہ:۹؍۸۰) مسجد میں کوئی نہ ہو تو؟ لیکن اگر مسجد میں کوئی نہیں ہے، تو داخل ہوتے وقت السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین کہہ سکتے ہیں؛ کیوں کہ رہائشی گھروں میں یہ حکم ہے کہ وہاں اگر کوئی نہیں ہے تب مذکورہ الفاظ میں سلام کرے، تو خدا کے گھر میں یہ حکم بدرجہ اولیٰ ہوگا؛ کیوں کہ مساجد میں فرشتوں کا ہوناظاہر واغلب ہے۔ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ولو دخل ولم یر أحدا یقول: السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین؛ فیکون مسلما علی الملائکۃ الذین معہ وصالحي