اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے: کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تمہیں اہل کتاب سلام کریں تو جواب میں ’’وعلیکم‘‘ کہو۔(بخاری:۶۲۵۸) حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تمہیں یہود سلام کرتے ہیں تواُن کا ہر ایک آدمی السام علیک(تم مرجاؤ) کہتا ہے تو تم جواب میں وعلیک کہو۔(بخاری:۶۲۵۶) معلوم ہوا کہ اگر وہ (اہل کتاب، کفار ومشرکین) خود پہل کریں اور السلام علیکم یا السلام علیک کہیں تو اس کے جواب میں صرف ’’وعلیکم‘‘ یا ’’وعلیک‘‘ کہہ دیا جائے، اور بغیر واو کے بھی(۱) صرف ’’علیکم‘‘ یا ’’علیک‘‘ کہہ سکتے ہیں اور علماء نے لکھا ہے: کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ غیر مسلم کے جواب میں ’’ہداک اللہ‘‘ (اللہ تجھے ہدایت دے) کہا جائے۔ (مظاہر حق:۵؍۳۴۰) اگر غیر مسلم، مسلم کو نمستے کہے اگر کوئی غیر مسلم، نمستے کہے تو جواب میں نمستے نہ کہا جائے؛ بلکہ ’’ہداک اللہ‘‘ اور’’ سلام‘‘ کہہ دیا جائے، فقط’’سلام‘‘ کہہ دینا بھی درست ہے۔(محمودیہ:۱۹؍۹۳) لا مذہب کو سلام کرنا لا مذہب جیسے کمیونسٹ سوشلسٹ، دہریہ وغیرہ کو سلام کرنا مکروہ ہے، یہی حکم مرتد کا بھی ہے۔ (اہمیت سلام وملاقات:۳۸) کافر کو سلام کہلوانا اگر کوئی غیر مسلم اپنے مسلمان دوست یا بزنس پارٹنر سے کہے مثلاً زید کو نمستے، جے رام جی کہہ دینا تو زید سے یہ جملے کہنا جائز نہیں؛ بلکہ وہ اُس سے کہے گا: کہ فلاں نے تمہیں سلام (۱) احادیث میں ’’وعلیکم‘‘ اور ’’علیکم‘‘ دونوں طرح منقول ہے؛ اس لیے دونوں طرح کہنا صحیح ہے، روایۃ الحذف أحسن معنیً، والإثبات أصح وأشہر۔أوجز:۱۹؍۱۸۶، زاد المعاد:۲؍۳۸۶۔ کہا ہے؛ کیوں کہ نمستے، ہندو مذہب کا شعار ہے، نیز اس کے معنی بندگی کے بھی آتے ہیں، اور جے رام(۱) یہ عجم کے ایک باطل پیغمبر کا نام ہے۔(محمودیہ:۱۹؍۹۱) ہدایت کی امید پر سلام کرسکتے ہیں جب کوئی خاص ضرورت نہ ہو تو کافروں کو نہ سلام کرے اور اسی طرح فاسقوں کو بھی،اور جب کوئی حاجت ضروری ہو تو مضائقہ نہیں، اور اگر اُس کے سلام اور کلام کرنے سے ان کی ہدایت پر آنے کی امید ہو تو بھی سلام کرے۔(بہشتی زیور کامل:۱۱؍۷۴۷) مسلم اور غیر مسلم کی مخلوط مجلس میں کیسے سلام کرے؟ موجودہ دور میں؛ خصوصاً ہمارے ہندوستان میں اکثر جگہیں ایسی ہیں، جہاں مسلم وغیر مسلم سب مل کر کام کرتے ہیں، مثلا: سرکاری وغیر سرکاری آفس، کارخانے اور اسکول وکالج وغیرہ تو وہاں ایک دین دار مسلمان کیا کرے؟ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں: