اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱) یہ مطلب شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے بیان کیا ہے۔ (۲) علامہ طیبیؒ لکھتے ہیں: انسان بوقتِ رخصت، سلام کر کے اپنے گھر والوں کے پاس سلام کو بطور ودیعت وامانت کے رکھ دیتا ہے کہ واپس لوٹ کر آؤں گا تو اپنی ودیعت وامانت کو واپس لوں گا؛ جیسا کہ امامنتیں واپس لی جاتی ہیں،گویا اُس وقت سلام کرنا، اِس امرکی نیک فالی لینے کے مرادف ہے کہ گھر سے رخصت ہونے والا سلامتی کے ساتھ لوٹ کر آئے گا، اور اُس کو دوبارہ سلام کرنے کا موقع نصیب ہوگا۔(شرح الطیبی:۹؍۲۰، فیض القدیر: ۱؍۳۴۱) مجلس سے واپس ہوتے وقت سلام کرنا حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے :کہ تم میں سے کوئی جب کسی مجلس میں پہنچے تو چاہیے کہ سلام کرے، پھر اگر بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے، نیز جب (مجلس سے) چلنے کے لیے کھڑا ہو تو اس وقت بھی سلام کرے؛ کیوں کہ پہلا سلام کرنا، دوسرا سلام کرنے سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ (ابوداؤد:۵۲۰۸) یعنی جیسے مجلس میں آتے وقت سلام کرنا مسنون ہے؛ ویسے ہی جب وہاں سے جانے کا ارادہ ہو، خواہ مجلس میں بیٹھا تھا یا بیٹھا نہیں تھا، تو لوگوں کو سلام کرے؛ کیوں کہ جتنی اہمیت پہلے سلام کی ہے، اتنی ہی سلامِ رخصت کی ہے۔ عام طور پر یہ سنت معاشرے میں متروک ہے، آتے وقت تو سلام کرلیتے ہیں؛ لیکن جاتے وقت بھول جاتے ہیں، اور کچھ نئی تہذیب کے دل دادہ جاتے وقت ’’فی ا مان اللہ‘‘،’’ اللہ حافظ‘‘ اور’’ خدا حافظ‘‘ کے الفاظ کہہ کر رخصت ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ کہتے ہیں’’اچھا تب چلتے ہیں‘‘ یہ سب الفاظ مسنون سلام کے قائم مقام نہیں ہوسکتے۔ سلامِ رخصت کی مصلحتیں (۱) جس نے پہلا سلام کیا ہے؛ گویا وہ یہ ضمانت لے رہا ہے کہ میری طرف سے مخاطب شرور وفتن اور فتنہ وفساد سے محفوظ ہے؛ اب جب کہ وہ جارہا ہے تو اُسے سلام کرنے کی تاکید کی گئی؛ تاکہ اب وہ دوبارہ اِس بات کی ضمانت دے کہ اُس کی عدم موجودگی میں بھی مخاطب اُس کے شرو فساد سے مامون ہے، اُسے میری طرف سے کوئی اندیشہ نہیں کرنا چاہیے۔(شرح الطیبی: ۹؍۲۵) (۲) سلام کرکے جانے سے ناراض ہو کر، ناگواری سے چل دینے اور کسی ضرورت کے لیے جانے اور پھر ایسی ہی صُحبت (رفاقت) کے لیے لوٹنے کے درمیان امتیاز ہوتا ہے؛ اگر سلام کر کے گیا ہے تو خوش گیا ہے، ورنہ دوسری بات کا اندیشہ ہے۔ (۳) سلام کر کے رخصت ہوگا تو صاحبِ مجلس کو اُس سے کوئی بات کہنی ہوگی تو کہہ سکے گا اور چپکے سے چلا گیا تو بات رہ جائے گی۔ (۴) ایک جانا، کھسک جانا ہے، جس کی سورۃ النور آیت: ۶۳ میں برائی آئی ہے؛ پس جو سلام کرکے جائے وہ اس عیب سے محفوظ رہے گا۔(حجۃ اللہ البالغۃ:۲؍۱۹۸،اشرفیہ، رحمۃ اللہ الواسعۃ: ۲؍۵۴۹) سلامِ رخصت کا جواب واجب ہے یا مستحب؟ ملا علی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: ہمارے بعض محققین شراح نے کہا ہے: کہ اِس رخصتی سلام کا جواب واجب نہیں؛ بلکہ مستحب ہے؛ کیوں کہ یہ سلام اصل میں دعا اور وداع ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں وإذا حییتم بتحیۃ فحیوا بأحسن منہا آیا ہے اور