اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسری وجہ ابن قیمؒ نے بیان کی ہے: حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے سلامٌ کہا، جس کامطلب ہے سلامٌ علیکم تو یہ اشارہ تھا کہ آئندہ حضورﷺ کی امت کو ایسے ہی سلام کرنا ہے، اور اِس طرح سلام کرنا دینِ حنیف اور ملتِ ابراہیمیہ کا حصہ ہے، جس کی اقتداء اور پیروی کا حکم حضورﷺ کو بھی دیا گیاہے، تو حضرت ابراہیم ؑنے سلامٌ کہہ کر اقتداء واتباع کو آسان کردیا، اور اگر وہ مہمانوں کے طرز پر ہی جواب دیتے تو یہ لطیف نکتہ پیدا نہ ہوتا۔(بدائع:۲؍۱۵۸) نماز کا اختتام ’’سلام‘‘ سے کیوں؟ ابن قیمؒ کی تحقیق نماز دین کا ستون ہے اور ایک اہم ترین عبادت ہے، اِس کے دو دروازے ہیں: ایک باب الدخول: یعنی نماز میں داخل ہونے کا دروازہ، دوسرے باب الخروج: یعنی نماز سے نکلنے کادروازہ،’’ اللہ اکبر‘‘ باب الدخول ہے؛ جب کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ باب الخروج ہے، اِس انتخاب کی وجہ کیا ہے؟ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: جب بندہ نماز میں داخل ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو تمام مصروفیات ومشاغل سے کنارہ کش ہوتا ہے، تمام تعلقات وعلائق کو ختم کردیتا ہے؛ چوں کہ اب ربِ کائنات سے مناجات کرنی ہے، تو اُس پر ضروری قرار دیا گیا کہ وہ رب کائنات کی بارگاہ میں با ریابی کے لیے ادب واحترام کا ایک جامع لفظ اختیار کرے ، شریعت نے بتایا :وہ لفظ اللہ اکبر ہے، جس کا مطلب ہے ’’اللہ أکبر من کل شئ‘‘ یعنی اللہ کی ذات ہر اُس چیز سے بڑی اورعظیم ہے جسے انسانی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں، انسانی عقلیں سوچ سکتی ہیں، تو اِس لفظ میں عظمتِ خداوندی اور اللہ کی کبرائی کا ایک سمندر ہے، کوئی دوسرا لفظ اِس جگہ اِس کی نیابت نہیں کرسکتا؛ اِسی لیے بعض ائمہ کے نزدیک نماز ،اللہ اکبر سے ہی شروع ہوسکتی ہے، دوسرے الفاظ سے نہیں، اِسی لیے تو کہا گیا :کہ جس نے اللہ اکبر کے ذریعہ نماز شروع کردی تو اللہ کی کبریائی اور عظمت کا تقاضہ یہ ہے کہ اب اُس کے دل میں، غیر اللہ کا خیال بھی نہ آئے؛ اگرنماز میں اُس کا دل کہیں اور ہے تو وہ نماز میں داخل ہی نہیں ہوا بل الباب عنہ مسدود۔ ابو الفرج ابن الجوزیؒ نے اپنے کسی وعظ میں بڑی پیاری بات لکھی ہے: حضور القلب أول منزل من منازل الصلاۃکہ حضور قلب یعنی دل اللہ کی جانب مائل ہو، یہ نماز کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، اگر یہ منزل حاصل نہیں ہوئی تودوسری اہم منزلیں مثلاً: مناجات وغیرہ وہ کیسے حاصل ہوں گی، تو اللہ اکبر اُسی حضور قلب کا مقدمہ ہے، اب اگر اُس نے اللہ اکبر کا حق ادا کردیا تو وہ در حقیقت دروازے سے گھر میں داخل ہوگا اور وہاں سے خیر وبھلائی او رثواب کی شکل میں تحفہ تحائف لے کر واپس لوٹے گا۔ اب جب نماز پوری ہوگئی تو گھر سے نکلنے کے لیے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کا دروازہ دکھایا گیا اور کہا گیا: کہ تم داخل ہوئے اللہ کا نام لے کر تو تم نکلو بھی اللہ کا نام لے کر؛ گویا آغاز اللہ کے ذاتی نام سے اور اختتام اللہ کے صفاتی نام پر اور صفاتی ناموں میں سے السلام کا انتخاب اِس لیے ،کہ نمازی جب تک نماز میں ہوتا ہے تو ہر طرح کی آفات وشرور اور باطنی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے، یہ اللہ کے نام کی برکت ہوتی ہے،اب جب وہ نماز کی تکمیل کر کے نماز سے باہر نکلنے کا ارادہ کررہا ہے تو خارجِ صلاۃ آفات وشرور، شیطانی وساوس ہر جانب سے منہ کھولے کھڑے ہیں، اب جب اس نے