اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر کے دیکھئے، درخت کی وہی شاخیں جھکی ہوتی ہیں، جن پر پھل ہوتے ہیں، اور لوگوں کو سایہ بھی انہیں درختوں سے حاصل ہوتا ہے، اور جن درختوں پر پھل نہیں ہوتے، وہ دیکھنے میں بڑے لمبے اور مینار جیسے ہوتے ہیں؛ لیکن دھوپ میں اُن سے سایہ بھی نہیں ملتا، کوئی مسافر وہاں رکناپسند نہیں کرتا؛ حتی کہ جانوربھی نہیں، مصافحہ میں ہاتھ بڑھایئے، تواضع کی دولت ملے گی۔ مصافحہ کے بعد ہاتھ چومنا ضروری نہیں مصافحہ کرنے کے بعد بعض علاقوں میں ہاتھ چومنے کی رسم ہے، اِس سے بچنا چاہیے؛ کیوں کہ اصل سنت تو مصافحہ ہے، ہاتھ چومنا گو جائز ہے؛ لیکن سنت نہیں ہے اور یہ شوقِ محبت میں ہوتا ہے اور یہ ایک وجدانی بات ہے، کسی وقت شوق وجوشِ محبت کا غلبہ ہوتا ہے اور کسی وقت نہیں ہوتا ، جب نہ ہو تو اُس وقت محض تصنع ہے جس سے بچنا چاہیے، اورایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ بعض طبائع پر توحید کا غلبہ ہوتا ہے، انہیں یہ فعل نہایت گراں معلوم ہوتا ہے؛ اِس لیے ان کی گرانی کا خیال کرتے ہوئے بھی اِس سے بچنا چاہیے۔ مصافحہ کرتے وقت کچھ دینا بعض مرتبہ کسی خاص تقریب میں لوگ مصافحہ کرتے ہوئے ہاتھ میں روپے یا روپے کا لفافہ دیتے ہیں، اِس کا رواج کثرت سے ہوچکا ہے، اِس رواج کو ختم کرنا چاہیے، مصافحہ کی سنت میں یہ چیز زائد ہے، اِس کی وجہ سے اصل سنت کے ساتھ ایک دنیاوی چیز کا تلوُّث ہوجاتا ہے، جواچھی بات نہیں،حضرت تھانویؒ نے اِس سے منع لکھا ہے۔دیکھیے (اسلامی تہذیب: ۶۹) خوشی کے موقع پر مبارک بادی اور مصافحہ انسان کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جن میں وہ بہت خوش ہوتا ہے، اور یہ خوشی اُس وقت دو چند ہوتی ہے جب اُس خوش کن خبر کی اطلاع کوئی دوسرا آکر دے، ایسے مواقع پر بھی صحابہ کرامؓ سے مصافحہ ثابت ہے؛عموماً خوش کن خبر پر ایک دوست، ایک بھائی، دوسرے دوست اور بھائی کو مبارک باد دیتا ہے، اِس سلسلے میں صحابہ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ سلام ومصافحہ پہلے کرتے تھے پھر مبارک بادی کے گلدستے پیش کرتے تھے، اور صحابہ کرامؓ کا یہ طرز عمل حد درجہ کی آپسی محبت وخلوص کا عکاس ہوا کرتا تھا، امام بخاریؒ نے باب المصافحۃ کے تحت حضرت کعب بن مالکؓ کی حدیث کا ایک ٹکڑانقل کیا ہے، جس سے مصافحہ اور مبارک بادی کا ثبوت ہوتا ہے، حدیث کا ٹکڑا پڑھنے سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ غزوہ تبوک میں چند صحابہ کرام کی شرکت نہ ہوسکی تھی، اُن میں سے ایک حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بھی تھے، نبی کریمﷺ ناراض تھے، یہ سلام کرتے تھے تو حضورﷺ کے ہونٹ حرکت نہیں کرتے تھے، مسلمانوں نے بات چیت بند کردی تھی؛ لیکن حضرت کعب بن مالکؓ نے سچی توبہ کی، اور قبولیتِ توبہ پر آیت کانزول ہوا، جس مجلس میں اُن کی توبہ کی قبولیت کی آیت اتری، حضرت کعبؓ موجود نہیں تھے، حضرت کعب ؓکی زبانی سنیے: اور خیال رہے کہ یہ واقعہ حضورﷺکے سامنے پیش آیا ہے۔ قال کعب بن مالک: دخلتُ المسجدَ؛ فإذا برسول اللہﷺ، فقام إليَّ طلحۃ بن عبید اللہ یہرول حتی صافحني