اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ثابت نے اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔(الادب المفرد:۹۰۹، باب تقبیل الید) (۶) حضرت صہیبؒ کہتے ہیں: میں نے حضرت علیؓ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (الادب المفرد، رقم: ۹۱۰، تقبیل الرجل) (۷) ترمذی میں دو یہودیوں کا حضورﷺ کے ہاتھ اور پیر کو چومنے کا تذکرہ ہے۔ (ترمذی، رقم: ۲۷۳۵) (۸) طبرانی نے کعب بن مالکؓ سے روایت کیا ہے کہ جب نبی کریمﷺ اُن کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے آں حضرتﷺ کا دست مبارک اپنے ہاتھوں سے تھاما اور اس کو بوسہ دیا۔ (۹) طبرانی نے معجم اوسط میں سند جید کے ساتھ سلمہ بن اکوع ؓسے روایت کیا ہے: انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی، میں نے آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیا تو آپ نے مجھے منع نہیں فرمایا۔ (۱۰) حافظ ابو موسی مدینیؒ وغیرہ نے حضرت سفیانؒ سے روایت کیا ہے: کہ انہوں نے ایک مجلس میں بیان کیا کہ عالم اور سلطانِ عادل کی دست بوسی سنت ہے، اُس مجلس میں حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ موجود تھے وہ کھڑے ہوئے اور اُن کے سر کو بوسہ دے کر کہا: اس سنت پر عمل کرنے کے لیے اِس سے اچھا موقع کہاں ملے گا؟ تلک عشرۃ کاملۃ۔(۱) مسائل واحکام ہمارے اکابر قدم بوسی کی تو بالکل اجازت نہیں دیتے؛ کیوں کہ وہ ہندوؤں کے فعل کے مشابہ ہے، ہندو اپنے بڑوں کے پاؤں پڑتے ہیں اور وہ اس کو انتہائی تعظیم خیال کرتے ہیں…اور دست بوسی کواگر چہ جائز کہتے ہیں، مگر پسند نہیںکرتے؛ کیوں کہ دست بوسی کے وقت جھکنا پڑتا ہے اور آدمی رکوع کے مشابہ ہو جاتا ہے، پس وہ سلامی کے سجدہ کی طرح ہوگیا؛ اِس لیے اگر کسی کو چومنا ہے تو پیشانی چومے،نبیﷺ سے یہی بات ثابت ہے۔(تحفۃ الالمعی: ۶؍۵۰۷) دوسرے کے ہاتھ کو چومنے کا معیار علامہ نوویؒ فرماتے ہیں: کسی کی بزرگی، زہد، صلاح وتقویٰ، علم اور شرافت یا دیگر دینی فضائل کی وجہ سے ہاتھ چومنا مکروہ نہیں؛ بلکہ مستحب ہے؛ البتہ کسی کی مالداری یا شوکت ودبدبہ یا جاہ وجلال وغیرہ کی وجہ سے ہاتھوں کوچومنا سخت مکروہ ہے اور متولیؒ نے تو ناجائز کہا ہے۔(الاذکار:۲۹۹) مسئلہ: کسی عالم یا سلطان عادل اور حاکم کے ہاتھ کو چومنا، ان کے علم وانصاف کی بنیاد پر اور دین کے اعزاز واکرام کے جذبہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔(الدر علی ھامش الرد:۹؍۵۴۹) مسئلہ: اگر کوئی شخص کسی عالم یاکسی بزرگ سے اس کے پیر چومنے کی درخواست کرے تو اس کو ہر گز