اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، اور تکبر والوں کی جگہ جہنم ہے، جس کے حق میں فرمایا گیا ہے، بئس مثوی المتکبرین (وہ دوزخ متکبرین کا برا ٹھکانہ ہے)(معارف الحدیث:۶؍۱۷۵) تیسری حدیث کا اصل مصداق بھی بڑے کے سامنے مسلسل کھڑے رہنا ہے؛ مگر نبی کریمﷺ نے یہ ارشاد اس موقع پر فرمایا ہے جب صحابہ تعظیم کے لیے کھڑے ہوئے تھے، جو بعد میں بیٹھ گئے تھے؛ لہٰذا یہ دوسری صورت بھی حدیث کا مصداق ہے۔ غرض عجمیوں کی طرح کھڑا رہناجائز نہیں، اُن کاطریقہ یہ تھا کہ نوکر آقا کی خدمت میں اوررعایا بادشاہ کی خدمت میں کھڑی رہتی تھی،اُن کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی اور یہ انتہائی درجہ کی تعظیم سمجھی جاتی تھی، جس کی سرحدیں شرک سے ملی ہوئی تھیں؛اس لیے اس کی ممانعت کی گئی۔ اسی طرح بڑے کے آنے پر تعظیم کے لیے کھڑا ہونا، پھر بیٹھ جانا بھی ممنوع ہے، نبیﷺ جب مکان سے باہر تشریف لاتے تھے اور صحابہ کرام ہوتے تھے تو وہ تعظیم ہی کے لیے کھڑے ہوتے تھے، مُثُول یعنی خدمت میں مسلسل کھڑا رہنا مقصود نہیں تھا، پھر بھی آپ نے ممانعت فرمائی؛ کیوں کہ یہی قیام تعظیمی مُثُول تک مُفضی ہوتا ہے اور اس سے مقتدیٰ کا نفس بھی خراب ہوجاتا ہے اور اگر تعظیم میں غلو شروع ہوجائے تو مقتدی کاحال بھی برا ہوجاتا ہے؛ جیسا کہ لوگوں کے احوال میں یہ بات مُشَاہَد ہے۔(شرح ابن بطال:۹؍۴۷، تحفۃ الالمعی: ۶؍۵۲۴) مولانا منظور نعمانیؒ لکھتے ہیں: اگر کوئی آدمی خود بالکل نہ چاہے؛ مگر دوسرے لوگ اکرام وعقیدت ومحبت کے جذبہ میں اس کے لیے کھڑے ہوجائیں تو یہ بالکل دوسری بات ہے؛اگر چہ رسول اللہﷺ اپنے لیے اس کو بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔(معارف الحدیث: ۶؍۱۷۶) جوازِ قیام کی روایتیں کسی کے آنے پر فرحت وسرور سے کھڑے ہونے کی، اُس کے لیے جھوم جانے کی اور اُس کے اکرام اور اُس کی خوش دلی کے لیے اٹھنے کی ، پھر بیٹھ جانے کی گنجائش ہے، روایت پڑھیے: (۱) حضرت فاطمہؓ آں حضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضورﷺ (جوشِ محبت سے) کھڑے ہوکر اُن کی طرف بڑھتے،اُن کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور (پیارسے) اُس کو چومتے اور اپنی جگہ پر ان کو بٹھاتے(اور یہی اُن کا دستور تھا) جب آپ ان کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے لیے کھڑی ہوجاتیں، آپ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے لیتیں،اُس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر آپ کو بٹھاتیں۔(ابوداؤد:۵۲۱۷) تشریح: اسی لیے ہمارے اکابر کسی مہمان، دوست، بزرگانِ دین وغیرہ کی آمد پر فرحت وسرور اور اعزاز واکرام کے طور پر کھڑے ہونے کو جائز کہتے تھے، ہاں کسی کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کوناپسند کرتے تھے، شارح بخاری شیخ ابن بطالؒ نے مذکورہ قیام کے جواز پر اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔(۹؍۴۷) (۲) امام بخاریؒ نے’’الادب المفرد‘‘ میں باب قیام الرجل لأخیہ کے تحت وہ مشہور