اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سلسلے میں ہے، اور مذکورہ حدیث بیعت کے بارے میں ہے؛ کیوں کہ خود مبارک پوری صاحبؒنے لکھا ہے: لأن المصافحۃ عند اللقاء والمصافحۃ عند البیعۃ متحدتان في الحقیقۃ۔ (تحفہ:۷؍۴۳۲) (۳) ترمذی کی روایت(۲۷۲۹) ہے حضرت انسؓ راوی ہیں: اخیر میں ہے: قال: فیأخذ بیدہ، ویصافحہ قال نعم۔ (۴) ترمذی کی روایت (۲۷۳۱) ہے ابن مسعوؓدراوی ہیں: قال: من تمام التحیۃ، الأخذ بالید۔ تجزیہ: بات بے غبار ہے کہ ید سے جنس ید مراد ہے، اور اس کی بہت ساری نظریں ہیں، وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً إِلَی عُنُقِک(۱) من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ(۲) المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (۳)۔ اِن نصوص میں، ایسے ہی ید کاتذکرہ ہے جیسے اوپر کی روایتوں میں؛ حالاں کہ اِن تمام نصوص میں جنس ید مراد ہے، صرف ایک ہاتھ او روہ بھی دایاں مراد نہیں۔ (خلاصہ احسن الفتاویٰ:۸؍۳۹۹، اوجز:۱۶؍۱۳۱، الابواب: ۶؍۳۵۵) ملحوظہ: ان مذکورہ توجیہات کو سامنے رکھا جائے تو مصافحہ بالید الواحدۃ کے سلسلے میں جتنی بھی روایتیں ذکر کی جائیں گی، اُن سب کا جواب بن جائے گا۔ فیصلہ کن بات ایک ہاتھ سے مصافحہ جائز اور دونوں ہاتھوں سے اکمل ہے، اب جائز دونوں ہیں تو کس کواختیار کرنا؛ بالخصوص اس زمانے میں سنت کے زیادہ قریب ہوگا اس سلسلے میں حضرت گنگوہیؒ کی رائے متوازن اور معتدل ہے اور دل کو لگتی ہے۔ والحق فیہ أن مصافحتہﷺ ثابتۃ بالید والیدین، إلا أن المصافۃ بید واحدۃ لما کانت شعار أہل الإفرنج وجب ترکہ لذلک۔ (الکوکب الدری:۳؍۳۹۲) آج پوری دنیا میں جہاں بھی یہودی وعیسائی ہیں وہ سب ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں، یہی اُن کا شعار ہے، او رہمارے ہندوستان میں بھی غیر مسلم بھائی ایک ہاتھ سے ہی مصافحہ کرتے ہیں، تو اُن کی مشابہت سے بچنے کے لیے ہم مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کریں تو زیادہ اچھا (۱) بنی اسرائیل: ۲۹۔ (۲) مسلم، رقم الحدیث: ۴۹۔ (۳) بخاری، رقم الحدیث :۱۰۔ ہوگا، ایک تو سنت سے ثابت بھی ہے، دوسرے مشابہت سے بچنے کا حکم بھی ہے، اور پھر یہی طریقہ بزرگانِ دین میں بھی متعارف رہا ہے، اور اسی طریقے کو علمائِ امت نے سنت کے قریب سمجھا ہے؛لہٰذا اس مسئلے میں شدت اختیار کرنا اور اصرار کرنادرست نہیں، ایک ہاتھ سے مصافحہ پر اصرار کی تردید میں محقق ظفر احمد تھانویؒ لکھتے ہیں: ثم المصافحۃ بالید الواحدۃ من شعار أہل الباطل في زماننا؛ فلا ینبغي الشبہ بہم بترک ما ہو المتوارث المتعارف بین المسلمین، وقد ثبت أنہ صافح حماد بن زید ابن المبارک بکلتا یدیہ، ولم یثبت خلافہ عن أحدٍ؛ فلا ینبغي أن یترک سنۃ السلف باجتہاد ہؤلاء المحدثین الجہلۃ۔(اعلاء السنن:۱۷؍۴۳۳، کتاب الحظر) (۱) احسن الفتاویٰ میں ہے: ایک ہاتھ سے مصافحہ جائز اور دو ہاتھوں سے مستحب ہے۔ دلائل الاستحباب: (۱) احادیث یدین ناقابلِ تاویل ہیں اور روایات ید محتملۃ التاویلات