اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بن مبارکؒ کے مصافحہ کا تذکرہ کیا ہے، صافح حماد بن زید ابن المبارک بیدیہ یعنی حضرت حماد بن زیدؒ نے ابن مبارکؒ سے اپنے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا(۱) امام بخاریؒ نے یہ روایت اگر چہ تعلیقاً ذکر کی ہے؛ لیکن ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اس کو موصولاً ذکر کیا ہے، الفاظ ہیں: (۱) بخاری:۲؍۹۲۶۔ محمد بن إسماعیل البخاري یقول سمع أبي من مالک، ورأی حماد بن زید یصافح ابن المبارک بکلتا یدیہ۔ ذرا آگے لکھتے ہیں: عن أبي إسماعیل إبراہیم قال رأیت حماد بن زید وجاء ابن المبارک بمکۃ فصافحہ بکلتا یدیہ۔ (فتح الباری:۶۸) دنیاء ِعلم حدیث کو معلوم ہے کہ علم حدیث میں حماد بن زیدؒ اور ابن المبارکؒ کا کیا مقام ہے، ابن المبارک ؒ کو تو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے، اِن حضرات کی حدیث فہمی میں اور روایت دانی میں کیا کسی کو شبہ بھی ہوسکتاہے، یہ حضرات دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کررہے ہیں، اِس کی وجہ او رکیا ہوسکتی ہے کہ وہ اِس طریقہ کو مسنون طریقہ سمجھتے ہوں گے، اورامام بخاریؒ بھی یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں؛اِسی لیے انہوں نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی کوئی روایت یا اثر ذکر نہیں کیا ہے، یہاں ایک اشکال ہوسکتا ہے کہ کچھ نسخوں میں باب الأخذ بالیدین کے بجائے باب الأخذ بالید ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ید سے مراد جنس ید ہے اور جنس ید، دونوں ہاتھ کو بولتے ہیں(۱) شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ لکھتے ہیں: وأما علی نسخۃ أبي ذر عن الحموي والمستملي بلفظ الإفراد؛ فإشارۃ إلی أن ما ورد في الروایات من لفظ الأخذ بالید، المراد بہا الجنس، ولذا ذکر الإمام في الباب أثر حماد وحدیث ابن مسعود - رضي اللہ عنہ - وإلا فلا وجہ لذکرہما في باب الأخذ بالید۔ (اوجز:۱۶؍۱۳۰) اور اگر صحیح نسخہ باب الأخذ بالید ہی ہو تو یہ کہا جائے گا کہ امام بخاریؒ نے باب،اخذ بالید کا قائم کیا اور روایت اخذ بالیدین کی ذکر کی ہے تو اس جانب اشارہ کیا ہے کہ جن روایتوں میں الأخذ بالید کا تذکرہ ہے وہاں مشروع مصافحہ مراد ہے جو دو ہاتھوں سے ہوتا ہے اور اس کو سمجھانے (۱) اور اگر جنس مراد نہ ہو تو ایک ہاتھ سے مصافحہ کی کوئی روایت ضرور ذکر کرتے؛ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ کے لیے حضرت حمادؒ کا اثر اورحضرت ابن مسعودؓ کی روایت نقل کی ہے، تو اس صورت میں یہی ثابت ہوا کہ مصافحہ دو ہاتھوں سے کرنا مسنون ومستحب ہے ۔ وإما أن یقال: إنہ أشار بذلک أن ماورد في بعض الروایات من الأخذ بالید فالمراد بہ، المصافحۃ المشروعۃ وہي تکون بالیدین فلذا عقبہا بأثر حماد۔ (الابواب والتراجم: ۶؍۳۵۷) (۳) تیسری حدیث: حضرت عبد الرحمان بن رزینؒ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: ہمارا گذر مقام ربذۃ سے ہوا، ہمیں بتایا گیا کہ یہاں حضرت سلمہ بن الأکوع رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہیں تو ہم اُن کے پاس آئے فَسَلَّمْنَا علیہ فأخرج یدیہ فقال بایعت بہاتین نبي اللہﷺ، ہم