اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تحقیق کے بارے میں دو آراء ہیں: ایک رائے یہ ہے کہ ’’السلام‘‘ سلَّم باب تفعیل سے اسم مصدر ہے بمعنی سلامتی جیسے کَلَّمَ کلاماً میں کلاماً اسم مصدر ہے، یعنی تمام آفات سے سلامتی اور شر سے حفاظت(۱) خواہ دینی ہو یا دنیاوی، جانی ہو یا مالی، اور جنت کا ایک نام ’’دارالسلام‘‘ اِسی وجہ سے ہے کہ وہ آفات سے سلامتی کا گھر ہے، قرآن میں ہے: لَہُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِندَ رَبِّہِمْ (۲) (لسان العرب : س ل م) دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میںسے ایک نام ہے، اور اِس صورت میں بھی یہ اسم مصدر (۳) اور مصدر دونوں ہو سکتا ہے، اسم مصدر کی صورت میں مضاف محذوف ہوگا یعنی ذو السلاماور مصدر کی صورت میں اسم فاعل کے معنی میں ہوگا یعنی السالم کے معنی میں۔ قرآن میں بھی اللہ کے ناموں میں یہ نام مذکور ہے: ہُوَ اللَّہُ الَّذِیْ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْْمِنُ(الحشر:۲۳) اور امام بخاری نے اپنی کتاب میں.8 ’’.8السلام من أسماء اللّٰہ‘‘کے عنوان (۱) علامہ عینیؒ لکھتے ہیں: السلام مصدر نعت بہ والمعنی: ذو السلامۃ من کل آفۃ ونقیصۃ ،عمدۃ القاری :۱۵؍ ۳۵۰ (۲) (الانعام: ۱۲۷) (۳) اسم مصدر: ایسا مصدر ہے جو اپنے فعل کے باب کے قیاسی وزن پر نہ ہو اور؛ ا گر اپنے قیاسی وزن پر ہو تو اُسے مصدر کہیں گے؛ چنانچہ اگر أفعل(أکرم) کا مصدر إفعال، فعَّل کا تفعیل آئے تو یہ مصدر ہے اور فعل کا مصدر فَعال کے وزن پر آئے تو اسم مصدر ہے، جیسے کَلَّمَ کا مصدر تکلیم اور اسم مصدر ’’کلام‘‘ ہوگا، لہٰذا سَلَّمَ کا مصدر تسلیماً اور اسم مصدر سلاماً ہوا، بدائع الفوائد: ۲؍ ۱۳۷ سے ایک باب قائم کیا ہے، جس کے تحت یہ روایت نقل کی ہے: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ جب ہم لوگ حضور ﷺکے ساتھ نماز پڑھتے تو یوں کہتے : السلام علی اللّٰہ قبل عبادہ، السلام علی جبرئیل، السلام علی میکائیل، السلام علی فلان وفلان۔۔۔۔۔ یعنی اللہ پر اُس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، جبرئیل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو اور فلاں فلاں پر سلام ہو۔ جب حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: إن اللّٰہ ہو السلام یعنی ’’السلام علی اللّٰہ‘‘ مت کہو؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ خود ’’السلام‘‘ ہیں ۔ (بخاری: ۶۲۳۰، کتاب الاستئذان) ابن قیمؒ لکھتے ہیں: وقولہﷺ ’’إن اللّٰہ ہو السلام‘‘ صریحٌ في کون السلام اسماً من أسمائہ یعنی حضورﷺ کا ارشاد ’’إن اللّٰہ ہو السلام‘‘یہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ السلام اللہ کا نام ہے۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۴۲) یعنی حضورﷺ کا ارشاد ’’إن اللّٰہ ہو السلام‘‘یہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ السلام اللہ کا نام ہے۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: إن السلام اسم من أسماء اللّٰہ تعالی وضعہ في الأرض، فأفشوا السلام بینکم۔(الأدب المفرد، رقم الحدیث:۹۲۵)