اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جگہ دینے کے لیے کھڑے ہوجانا ممنوع نہیں ہے اگرکوئی شخص کسی مجلس میں آئے اور جگہ کی قلت ہو توکوئی دوسرا شخص کھڑا ہوجائے؛ تاکہ (۱) مثلا: ریا کے لیے قیام مکروہ ہوگا، یعنی ظاہر میں کھڑا ہوگیا؛ لیکن دل میں اس کے لیے کوئی عزت نہیں ہے؛ ہاں اگر کھڑا نہ ہونے میں جانی یا مالی، دینی یا دنیاوی نقصان کا اندیشہ ہے تو مکروہ کا ارتکاب جائز ہے،بذل المجھود:۱۳؍۶۰۲۔ اُس نووارد کے لیے جگہ بن سکے تو یہ قیام مختلف فیہ قیام نہیں؛ بلکہ نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ اخلاقی تقاضہ بھی ہے، حضورﷺنے ارشاد فرمایا: کوئی شخص کسی دوسرے کی آمد پر کھڑا نہ ہو؛ لیکن اُس کے لیے کشادگی پیدا کرے۔ (المصنف: ۶؍۱۱۹) خلاصۂ اقوال: حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص ایسا نظر آئے جو علم وفضل اور بزرگی کا حامل ہو تو اس کی تعظیم وتوقیر کے طور پر کھڑے ہوجانا جائزہے، اِس میں کوئی مضائقہ نہیں،اِسی طرح مجبور وعاجز شخص کی مدد کے لیے کھڑے ہونا،بیٹے کا باپ کے واسطے، بیوی کا شوہر کے واسطے کھڑے ہوجانا یا کسی کو مبارک بادی پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوجانا، اس میں کوئی حرج نہیںہے ؛ البتہ ایسے شخص کے آنے پر کھڑے ہونا جو نہ صرف یہ کہ اس اعزاز کامستحق نہ ہو؛ بلکہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑے ہوجانے کی طلب وخواہش بھی رکھتا ہو، مکروہ ہے اور اسی طرح بے جا خوشامد وچاپلوسی کے طور پر کھڑے ہونا بھی مکروہ ہے، نیز دنیا داروں کے لیے کھڑے ہونا اور اُن کی تعظیم کرنا بھی نہایت مکروہ ہے ۔ مذکورہ احادیث کامحمل پہلی حدیث کامصداق یہ صورت ہے کہ لوگ بڑے کے آنے پر تعظیم کے لیے کھڑے ہوں، پھر بیٹھ جائیں، صحابہ کرام نبی کریمﷺ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے؛ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ آپ اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ آں حضرتﷺ اپنی انکساری کی اظہار اور اہل تکبر کے طور طریقوں کی مخالفت کی بنا پر اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ کی آمد پر صحابہ تعظیما کھڑے ہوں، آپ کی زندگی تکلفات سے خالی تھی۔ اور دوسری حدیث بڑے کے سامنے مسلسل کھڑے رہنے کے بارے میں ہے جیسے پچھلے زمانوں میں راجہ مہاراجہ کے دربا ر میں لوگ مسلسل کھڑے رہتے تھے؛ لہٰذا یہ وعید اُس شخص کے بارے میں ہے جو از راہِ تکبر اور زبردستی اپنی تعظیم کرانے کے لیے اپنے سامنے لوگوں کے کھڑے رہنے کو پسند کرتا ہواور لوگوں کو یہ حکم دیتا ہو کہ میں آؤں تو لوگ کھڑے رہیں اور اس کو لازم وضروری قرار دے۔ قال أبو سلیمان الخطابي رحمہ اللہ في معنی: ہذا ہو أن یأمرہم بذلک ویلزمہ إیاہم علی مذہب الکبر والنخوۃ۔(شعب الایمان:۶؍۴۶۹) مولانا منظور صاحبؒ لکھتے ہیں: ظاہر ہے اِس وعید کاتعلق اُس صورت سے ہے جب کہ کوئی آدمی خود یہ چاہے، اور اس سے خوش ہو کہ اللہ کے بندے اُس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں اور یہ تکبر کی نشانی