اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملتوں سے اعلیٰ واعظم بنانا ہے، اور یہ مقصد اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے، جب مسلمانوں کے لیے غیر مسلموں پر قدرت و غلبہ ہو ، مذکورہ حکم (غیر مسلموں کو سلام میں پہل نہ کرنا) اسی نقطہ نظر سے دیا گیا ہے۔(رحمۃ اللہ الواسعۃ: ۵؍۵۴۸) ان تصریحات کا حاصل یہ ہوا: کہ مذہبی امور، اہل مذہب کے ساتھ خاص رہنے چاہئیں، مذہب واعتقاد میں ہم غیر اقوام کو شریک نہیں کرسکتے، اور کیسے کرسکتے ہیں، ہم خدا کے حامی ہیں، وہ خدا کے باغی ہیں۔ ایک مرکزی نقطہ: مذکورہ حکم وہاںہوگا جہاں اسلام کو غلبہ حاصل ہو، اسلامی مملکت ہو، وہاں کے رہنے والے غیر مسلم، (مشرکین ،یہوداور نصاریٰ وغیرہ) مسلمانوں کے ماتحت ہوں، اپنے ملک ہندوستان کا مسئلہ الگ ہے؛اِس لیے یہاں درجِ ذیل نکتہ یاد رکھنا چاہیے: مسلمان او رغیر اقوام کے تعلقات کی دونوعتیں ہیں: ایک مذہبی واعتقادی،دوسرے سماجی واقتصادی۔ مذہبی اور اعتقادی حیثیت سے ایک مسلمان اور غیر مسلمان کے ما بین تعلقات، اسلام کو پسند نہیں، ایمان وکفر کی دیوار جو ایک مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان حائل ہے، مذہبی او راعتقادی معاملات میں اُس دیوار کا نہ صرف حائل رہنا ضروری ہے؛ بلکہ اس دیوار کا سد سکندری سے زیادہ مضبوط ہونا ضروری ہے؛ اِس لیے مذہبی، اسلامی اور تہذیبی اعتبار سے مسلمانوں کو، غیر مسلموں سے دور رہنا چاہیے، ورنہ اصل سرمایہ اور پونجی کے ضیاع کا خطرہ ہر وقت رہے گا، فقہاء مذہبی واعتقادی تعلقات کو ’’ مُوَ الاَت‘‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے: غیر مسلموں سے ایسا تعلق کہ انسان اُن کا اثر قبول کرنے لگے، یہ ممنوع ہے اور یہی مطلب ہے قرآن کی اِس آیت کا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء ۔(الممتحنہ:۱) میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ۔ البتہ سماجی یا اقتصادی اعتبار سے، علاقہ اور زبان کے اِتحاد کے اعتبار سے، مسلمان کا غیر مسلموں کے ساتھ رہنا، بات چیت کرنا، صاحب سلامت کرنا، اُن کی مدد کردینا اور اُن کے غم میں شریک ہوجانا وغیرہ جسے اردو میں ’’حسنِ سلوک‘‘ اور اصطلاحِ فقہ میں ’’مواسات‘‘ کہتے ہیں، جائز ہے، اِس اعتبار سے غیر مسلموں کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھنا اور انسانی بھائی چارہ کی بنیاد پر انہیں عزت واحترام کا مقام دینا جائز ہے، حضورﷺ کا غیر مسلموں کی مہمان نوازی،ممانعت سے پہلے منافقین کی نمازہ جنازہ تک پڑھنا، یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک، یہودی بچے کی عیادت، غزوہ بدر کے قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک ، اِس دوسری قسم کے تعلقات کی بنیاد پر تھا۔ ملک ہندوستان میں مسلمان اور غیر مسلم عموماً باہم مل کر رہتے ہیں، مسلمانوں کو اِس مرکزی نقطہ اور تعلقات کی دونوں قسموں کو ہر وقت، ہر جگہ ملحوظ رکھنا چاہیے، اوراِس فرق سے حدیث وفقہ کے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے، دیکھیے: نمستے اور نمشکار یا ہاتھ جوڑنا، پاؤں چھونا غیر مسلموں کا اعتقادی مسئلہ ہے، ہمارے لیے ایسا کرنا ناجائز ہوگا، السلام علیکم کہنا اسلامی عقیدہ ہے، ہم غیر مسلموں کے ساتھ اس کلمہ کا تبادلہ بلا ضرورت نہیں کرسکتے، اداب عرض ہے، سلام اور گڈ مارننگ