اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، اور یہی قرینِ قیاس بھی ہے، اگر اس موقع پر وجوب کا حکم لگایا جائے تو حرج ظاہر ہے؛ بالخصوص اُن مواقع پر جہاں ایک دوسرے سے ملاقات بار بار ہوتی ہو، اوپر والی حدیث کی شرح کے ذیل میں صاحب مظاہر لکھتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ اتنے معمولی وقفہ کی جدائی ومُفارَقت کے بعد بھی سلام کرنا مستحب ہے؛ چہ جائے کہ زیادہ عرصہ کے بعد ملاقات ہو؛ گویا یہ حدیث سلام کے استحباب اور ہر موقع پر اس ادب کے ملحوظ رکھنے کو مبالغہ کے طور پر بیان کرتی ہے۔(مظاہر حق:۵؍۳۴۸) بار بار آتے جاتے تکرار سلام سوال: حضور اکرمﷺ نے فرمایا: إذا لقي أحدکم أخاہ فیسلم علیہ؛ فإن حالت بینہما شجرۃ أو جدار أو حجر ثم لقیہ فیسلم علیہ۔( مشکوٰۃ:۲؍۳۹۹) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنی مرتبہ بھی کوئی دیوار وغیرہ حائل ہو، پھر آمنا سامنا ہو تو ہر مرتبہ سلام کہنا چاہیے، کیا یہ درست ہے؟ بینوا وتوجروا۔ الجواب باسم ملہم الصواب یہ حکم اَحیاناً پیش آنے والی صورت پر محمول ہے، جہاں بار بار یہ صورت پیش آتی ہو مثلاً: کوئی مخدوم کے کمرے میں بار بار آتا جاتا رہتا ہے تو اس میں تکرارِ سلام وجواب میں حرج ظاہر ہے؛ اس لیے یہ صورت حدیث سے مستثنی ہے۔(احسن الفتاوی:۸؍۵۴۳) گھر سے باہر جاتے وقت گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے حضرت قتادہ کہتے ہیں: کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب تم گھر میں جاؤ تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو، اور جب گھر سے باہر نکلو تو اپنے گھر والوں کو سلام کے ذریعہ رخصت کرو۔ (شعب الایمان مرسلاً:۸۸۴۵) یعنی گھر سے باہر جاتے وقت اپنے اہل وعیال: ماں، باپ، بیوی وغیرہ کو سلام کے ذریعہ الوداع کہو، حدیث کے الفاظ عام ہیں؛ لہٰذا یہ رخصتی سلام اُس وقت بھی مسنون ہوگا جب کہ دور کا سفر ہو اور اُس وقت بھی جب شہر ہی میں کسی کام سے باہر جارہے ہوں؛ عموماً لوگ جب دور دراز کے سفر پر جاتے ہیں تواُس وقت وداعی سلام کرتے ہیں؛ لیکن جب گھر سے نکل کر قریب کسی جگہ جاتے ہیں مثلاً: دوکان یا گھریلو اشیاء کی خریداری کے لیے بازار جاتے ہیں تو عموماً اُس وقت سلام کرنے میں سستی اور غفلت پائی جاتی ہے، حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوا کہ اُس وقت بھی سلام کرنا چاہیے، اور جسے سلام کیا جائے اُسے جواب دینا چاہیے۔ وداعی سلام کی مصلحتیں (۱) جب انسان رخصت ہوتے وقت اپنے اہل وعیال کو سلام کرتا ہے تو گویا وہ سلام کے خیر وبرکت کو اپنے اہل وعیال کے پاس امانت رکھتا ہے، جسے وہ آخرت میں واپس لے گا۔ (۱) (مظاہر حق:۵؍۳۴۸)