اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اجنبی شخص کے لیے صراحۃً اجازت ضروری ہے اجنبی شخص جس سے ملنا جلنا نہیں ہوتا، اُس کا حکم یہ ہے کہ وہ صراحۃً اجازت لیے بغیر گھر میں داخل نہ ہو، حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: کہ (ان کے اخیافی بھائی) صفوان ابن امیہ نے اُن کو دودھ، ہرنی کا بچہ اور چھوٹی ککڑیاں دے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا، رسول اللہﷺ وادیٔ مکہ کے بالائی حصہ میں قیام فرماتھے، کلدہ کہتے ہیں: میں یہ چیزیں لے کر رسول اللہﷺ کے پاس پہنچ گیا، میں نے سلام کیا نہ حاضری کی اجازت چاہی، آپ نے فرمایا: واپس جاؤ اور کہو: السلام علیکم أ أدخلُ، السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں؟(مشکوٰۃ، حدیث: ۴۶۷۱، الأدب المفرد: ۱۰۱۷) جس دروازے پر پردہ نہ ہو وہاں اجازت کیسے لے؟ حضورﷺ جب کسی دروازے پر پہنچتے تھے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے؛ بلکہ دائیں بائیں کھڑے ہوتے تھے اور فرماتے : ’’السلام علیکم‘‘(۱) اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس زمانہ میں دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے؛ پس اگر پردہ پڑا ہوا ہو یا کواڑ بند ہوں تو سامنے کھڑا ہونا جائز ہے۔(رحمۃ اللہ الواسعہ: ۵؍۵۵۷) (۱) مشکوٰۃ، حدیث: ۴۶۷۳ اجازت لیتے وقت اپنا نام بتائیے حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ نے پوچھاکون ہے؟ میں نے کہا: ’’میں‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میں میں‘‘ (کیا ہے؟) گویا آپ نے اِس کو بُرا جانا۔(بخاری: ۶۲۵۰) اِس سے معلوم ہوا کہ اندر سے جب اجازت طلب کرنے والے کے بارے میں پوچھا جائے ،تو وہ یہ نہ کہے کہ ’’میں‘‘ ہوں یا ’’ہم ہیں‘‘؛ بلکہ اپنا نام یا جس سے شہرت ہے وہ بتائے؛ کیوں کہ ’’میں‘‘ کہنے میں ایک تو جواب ادھورا رہ جاتا ہے، دوسرے اَنانیت او ر تکبر کا شائبہ محسوس ہوتا ہے، اور اپنا نام وغیرہ بتانا،اپنی زبانی اپنا متواضعانہ تعارف ہوگا، دروازہ کھٹکھٹانا اور اِسی طرح گھنٹی بجادینا بھی اجازت طلب کرنے کے مفہوم میں داخل ہیں، پھر جب صاحب ِخانہ دروازے پر آئے تو پہلے اُسے سلام کیا جائے، پھر گفتگو کی جائے اور مقصدِ ملاقات بتایا جائے۔ اجازت طلب کرتے وقت کتنی مرتبہ سلام کیا جائے؟ آنے والے کو چاہیے کہ وہ اجازت طلب کرتے وقت مناسب وقفے کے ساتھ تین مرتبہ سلام کرے، اگر اجازت مل جائے تو اندر آئے؛ ورنہ دل میں کینہ وحسد اور دماغ میں شک وشبہ کے بغیر لوٹ جائے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ اجازت طلب کرے، پھر اُسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس لوٹ جائے۔(ابوداؤد،رقم: ۵۱۸۰) لَوٹنے کی وجہ: تین مرتبہ استئذان سے تقریبا یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ آواز سن لی