اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
(۲) امام مالک رحمۃ ا للہ علیہ نے موطا میں سند جید کے ساتھ محمد بن عمرو بن عطاءؒ سے روایت نقل کی ہے: وہ فرماتے ہیں: میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ کے پاس ایک یمنی شخص داخل ہوئے اور سلام یوں کیا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ثم زاد شیئاً مع ذلک پھر مزید کچھ کلمات کہے، حضرت نے جو اُن دنوں بینائی سے محروم ہوگئے تھے کہا: کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ایک یمنی صاحب ہیں جوآپ کے پاس آتے رہتے ہیں؛ چناں چہ لوگوں نے اُن کا تعارف کرایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: إن السلام انتہی إلی البرکۃ سلام کی انتہا برکت تک ہے۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۲۸، باب العمل فی السلام) (۳) اسی روایت کو امام بیہقیؒ نے شعب الإیمان میں بھی نقل کیا ہے، اُس روایت میں کچھ اضافہ ہے: ایک سائل آیا اور آپ کو سلام کیا اور کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ ورضوانہ اور اِس کو اُس سے شمار کیا (یعنی ومغفرتہ ورضوانہ کو سلام کا حصہ خیال کیا) تو ابن عباسؓ نے کہا: ما ہذا السلام؟ وغضب حتی احمرت وجنتاہ یہ کیسا سلام ہے ؟اور غصہ ہوئے؛ یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ کے بیٹے علی نے آپ سے کہا :اباجان! یہ مسئلہ پوچھنے والا ہے، آپ نے کہا: إن اللہ حدّ السلام حداً وینہی عما وراء ذلک ثم قرأ ’’رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم أہل البیت إنہ حمید مجید‘‘ بے شک اللہ نے سلام کی ایک حد مقرر کردی ہے اور اُس سے زائد سے منع فرمایا ہے، پھر آیت پڑھی رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم أہل البیت إنہ حمید مجید۔(ہود: ۳۷) (شعب الإیمان، رقم: ۸۸۷۸، فصل فی کیفیۃ السلام) (۴) زہرہ ابن معبدؒ کہتے ہیں: کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انتہی السلام إلی ’’وبرکاتہ‘‘ حافظ ابن حجرؒ نے کہا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔(فتح الباری: ۱۱؍۶، رقم الحدیث: ۸۸۷۸) (۵) ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کویوں سلام کیا : السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ، تو ابن عمرؓ نے اسے ڈانٹا اور کہا: حسبک إذا ا نتہیت إلی ’’وبرکاتہ‘‘ إلی ما قال اللہ عزوجل یعنی تیرے لیے کافی ہے جب تو ’’وبرکاتہ‘‘ تک پہنچے، جو اللہ تعالیٰ نے کہا( ابن عمر کی مراد وہی آیت تھی جو اوپر گذری) (شعب الإیمان: ۸۸۸۰) (۶) حضرت یحییٰ بن سعیدؒ سے مروی ہے: کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک شخص نے یوں سلام کیا، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ والغادیات والرائحات ابن عمرؓ نے جواباً کہا: تمہارے اوپر ہزار مرتبہ ہو ۔ راوی کہتے ہیں : ابن عمرؓ نے ایسا جواب، اس سلام کے طریقے کو ناپسند کرنے کی وجہ سے دیا( گویا طنزاً جواب تھا)؛ کیوںکہ اُس نے وبرکاتہ کے بعد والغادیات کا اضافہ کردیا تھا۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۳۳) (۷) پیچھے عمران بن حصینؓ کی روایت نقل کی گئی ہے، جس میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تک کا تذکرہ ہے، جس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں اُس میں اِس کے بعد کچھ الفاظ کا تذکرہ نہیں ہے۔(ابوداؤد: ۵۱۹۵) (۸) ہندیہ میں ہے: ولا ینبغي أن یزاد علی البرکات، قال ابن عباس رضي اللہ عنہما: لکل شيء منتہی، ومنتہی السلام، البرکات کذا في المحیط۔ (ہندیہ: ۵؍۳۲۵) (۹) صاحب المنتقٰی علامہ باجیؒ لکھتے ہیں: سلام کے تین اجزاء ہیں (۱) السلام