اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۷- راستے پر بیٹھنے والے کی ذمہ داری؟ راستے پر بیٹھنے کو شریعت نے پسند نہیں کیا ہے؛ مگر کبھی راستوں پر بیٹھنا ناگزیر ہوجاتا ہے؛ اس لیے اس وقت اس کی اجازت ہے؛ مگر اس صورت میں کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کا خیال رکھنا ضروری ہے، روایت پڑھیے۔ حضورﷺ انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے، وہ راستے پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: إن کنتم لا بد فاعلین، فرُدُّوا السلام وأعینوا المظلوم واہدوا السبیل یعنی اگر تمہارے لیے راستہ پر بیٹھنے کی مجبوری ہو تو سلام کا جواب دو، مظلوم کی مدد کرو اور راستہ کی رہنمائی کرو۔(ترمذی: ۲۸۷۰، استئذان) تشریح: حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ بے ضرورت راستہ پر نہیں بیٹھنا چاہیے،راستے سے عورتیں بھی گذرتی ہیں، پس نامحرم پر نظر پڑے گی؛ مگر کبھی لوگوں کے لیے اکٹھا ہونے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، ایسی صورت میں اگر وہ راستے پر بیٹھیں(تو سلام کریں) اور سلام کرنے والے کا جواب دیں، مظلوم کی مدد کریں اورکوئی راستہ پوچھے تو اس کو راستہ بتلائیں اور یہ ذمہ داریاں بطور مثال ہیں، ایسی اور بھی ذمہ داریاں ہوسکتی ہیں جو لوگوں کو خود سمجھنی چاہئیں۔(تحفۃ الالمعی: ۶؍۵۰۰) ۱۸- سلام کے سلسلے میں حضرت ابن عمرؓ کا شوق حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما، اتباعِ سنت میں شہرت رکھتے ہیں، حضورﷺ کے اقوال وافعال کی نقل حد سے زیادہ کرتے تھے، محبت کی بات ہے، محبت والے سمجھیں گے، سلام کے سلسلے میں ان کا ایک واقعہ پڑھیے: حضرت طفیل ابن اُبَی ابن کعب رضی اللہ عنہ حضرت کے پاس آیا کرتے تھے، حضرت ابن عمرؓ انہیں لے کر بازار جاتے تھے اور (راستہ میں) ہر ایک کو سلام کرتے تھے، چاہے وہ معمولی درجے کا دوکان دار ہو یا بڑا تاجر، خواہ غریب ومسکین ہو یا کوئی بھی شخص، ہر ایک کو سلام کرتے تھے، حضرت طفیل نے ایک روز ان سے پوچھا: کہ آپ بازار کیوں جاتے ہیں؟ وہاں نہ آپ کہیں رکتے ہیں، نہ خریدوفروخت کرتے ہیں، آخر بازار جانے کا سبب کیا ہے؟ بازار جانے سے بہترہے کہ ہم یہیں بیٹھ کر (احادیث کی سماعت کریں یا دینی باتیں کریں، حضرت نے کہا: میں بازار صرف اس لیے جاتاہوں؛ تاکہ ہر ملنے والے کو سلام کروں۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۳۲، جامع السلام) اس واقعہ سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ صحابہ کرام ایک ایک سنت کی ادائیگی کی کتنی فکر کرتے تھے؟ آج ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی سنتیں دم توڑ رہی ہیں اور ہم خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، کاش ہم بیدار ہوتے، ہوش کے ناخن لیتے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماکے اس جذبہ اور شوق کی وجہ کیا تھی؟ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی صاحبؒ نے اس پر روشنی ڈالی ہے: انہوں نے اپنی کتاب میں طبرانی کی ایک مرفوع روایت نقل کی ہے : جس نے ایک دن میں بیس مسلمانوں کو سلام کیا، چاہے اکٹھے طور سے یا الگ الگ؛ پھر اسی دن اس کا انتقال ہوجائے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔(رقم الحدیث: ۱۴۱۱۷) اسی طرح ابن جریرکی ایک روایت نقل کی ہے: جس نے دس مسلمانوں کو سلام کیا؛ گویا اس نے ایک غلام آزادکیا،اور اگراسی دن