اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر سے نماز پڑھو(ترمذی، رقم: ۳۰۳) ابن قیمؒ لکھتے ہیں: کہ آپ نے نماز کا انکار کیا، لیکن سلام میں تاخیر پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ (زاد المعاد: ۲؍۳۷۷) لیکن یہ رائے جمہور کی رائے کے خلاف ہے اور محل نظر ہے؛ کیوں کہ دوسری احادیث میں اس کے علاوہ صورتیں ثابت ہیں، مثلا موطا میں باب جامع السلام رقم الحدیث: ۱۷۳۰ کے تحت تین آدمیوں کا تذکرہ ہے کہ وہ مجلس میں آئے اورآکر دونوں نے سلام کیا، اسی طرح بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو مسجد میں آکر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھ گئے، لوگ آتے گئے فجئتہ فلما سلَّمتُ علیہ تَبَسَّم تبسُّمَ المغْضَب، پھر میں آیا، میں نے حضورﷺ کو سلام کیا، تو غصہ والی مسکراہٹ ظاہر فرمائی۔(بخاری، رقم: ۴۴۱۸) اِن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں داخل ہونے والے کی ملاقات اگر لوگوں سے ہوجاتی ہے، تو یہ اُن کو سلام کرسکتا ہے(بشرطیکہ لوگوں کو خلل نہ ہو) پھر تحیۃ المسجد پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، اور اگر لوگوں سے سامنانہ ہو اور لوگ کسی کونے میں یا دوسری طرف بیٹھے ہوں تو اپنی نماز (خواہ تحیۃ المسجد ہو یا کوئی اور نماز) پڑھے پھر ضرورت ہو تو جا کر اُن سے ملاقات کرے، نیز فقہاء نے یہ تو لکھا ہے کہ زیادہ دیر بیٹھنے کی وجہ سے تحیۃ المسجد فوت ہوجاتا ہے، یہ کسی نے نہیں لکھا ہے کہ سلام کرنے سے تحیۃ المسجد فوت ہوجاتا ہے۔ بندوں کا رب المسجد کو سلام کرنے کا طریقہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی مانع نہ ہو تو بیٹھنے سے پہلے تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنی چاہیے، یہ بندوں کا رب المسجد کو سلام کرنے کا طریقہ ہے۔(۱) (تحفۃ الالمعی: ۲؍۱۳۳) (۱) تحیۃالمسجد سے متعلق چند مسائل: جو شخص مسجد میں پہنچ کر بیٹھ جائے، پھر کھڑا ہو، اور دو رکعت پڑھے تو یہ بھی تحیۃ المسجد ہے، بیٹھنے کی وجہ سے تحیۃ المسجد فوت نہیں ہوتا؛ البتہ زیادہ دیر تک بیٹھنے سے تحیۃ المسجد کا وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور تھوڑے اور زیادہ وقت کی تعیین، رائے مبتلی بہ پر چھوڑ دی گئی ہے، صحیح ابن حبان میں حضرت ابوذرؓ کی یہ حدیث ہے کہ ایک مرتبہ وہ تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ گئے آں حضورﷺ نے دریافت فرمایا أرکعت رکعتین کیا تم نے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھ لیں؟ حضرت ابوذر نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا قم فارکعہما اٹھو اور دو رکعتیں پڑھو، صحیح ابن حبان میں اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے، بیٹھنے سے تحیۃ المسجد کا وقت فوت نہیں ہوتا۔(تحفۃ الالمعی:۲؍۱۳۲) اور جوشخص عصر یا فجر کے بعد یا اوقات ثلاثہ ممنوعہ میں مسجد پہنچے تو وہ تحیۃ المسجد نہ پڑھے، اس طرح اگر جماعت شروع ہوگئی ہو یا شروع ہونے والی ہو تو بھی تحیۃ المسجد نہ پڑھے۔(ایضا) جو شخص خطبہ جمعہ کے دوران آئے وہ تحیۃ المسجد نہ پڑھے، خطبہ سننا ضروری ہے۔(تحفۃ الالمعی: ۲؍۳۷۸) نوٹ: حجۃ اللہ البالغہ میں حضرت شاہ صاحب نے تحیۃ المسجد کی تین حکمتیں لکھی ہیں: إنما شرع ذلک: لأن ترک الصلاۃ - إذا حل بالمکان المُعدِّ لہا - ترۃ وحسرۃ وفیہ ضبط الرغبۃ في الصلاۃ بأمر محسوس، وفیہ تعظیم المسجد۔ رحمۃ اللہ الواسعہ میں اِس کی شرح میں ہے: پہلی وجہ: یہ ہے کہ مسجد میں پہنچ کر بھی - جو کہ خاص نمازہی کے لیے تیار کی گئی ہے- نماز میں مشغول نہ ہونا محرومی اور افسوس کی بات ہے۔ دوسری وجہ: مسجد میں آدمی فرض نماز ادا کرنے کے لیے پہنچتا ہے اور تحیۃ المسجد ایک محسوس چیز کے