اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آج خصوصاً عجم میں جہاں عربی اور عربی گرامر سے ناواقفیت عام ہے، یہ رواج عام ہے کہ لوگ السلامُ علیکم کی جگہ سَلَامْ علیکم کہتے ہیں یعنی سلام کے میم کو ساکن کر کے بولتے ہیں، در مختار نامی کتاب میں ہے: أنہ لا یجب رَدُّ ’’سلامْ علیکم‘‘ بجزم المیم یعنی ایسے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے۔ اس کی شرح میں علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ثم رأیتُ في الظہیریۃ: ولفظ السلام في المواضع کلہا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین وبدونِ ہذین کما یقول الجُہّالُ، لا یکونُ سلاماً؛ لمخالفتہ السنۃ التي جاء ت بالترکیب العربي۔ (الرد مع الدر: ۹؍۵۹۶) یعنی السلام علیکم یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے شروع میں الف لام اور اخیر میں پیش ہے، حدیث میں بھی ایسے ہی وارد ہے، اب اگر یوں کہیں ’’سلامْ علیکم‘‘ میم کے سکون کے ساتھ تو اِس صورت میں ایک تو شروع سے الف لام حذف ہوگئے، دوسرے جب اسم پر الف لام نہ ہو تو عموماً اُس کے اخیر میں تنوین آتی ہے، اور یہاں وہ بھی نہیںہے، تو یہ نہ صرف عربی قواعد کے خلاف ہے؛ بلکہ الفاظِ حدیث کے موافق بھی نہیں؛ لہٰذا یہ مسنون نہیں ہے؛ بلکہ بقول علامہ شامیؒ: ایسے سلام کرنے والے ناواقف اور جاہل ہوتے ہیں، اور ایسا عموماً بے توجہی اور جلد بازی کی وجہ سے ہوتا ہے؛ اِس لیے اس پہلو پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، خود بھی السلامُ علیکم کہیں اور دوسروں کو بھی بتائیں۔ چند اور غلط صیغے: (۱) سَلَامْ لِیکُم (۲) سَلَامَا لِیکُم (۳) السلامٌ علیکم (۵) السام لیکم (۶) السام علیکم (۷) سام علیکم (۸) سام لیکم (۹) السلامْ عَلِیکُم (میم کا سکون اور علیکم میں لام کے زیر کے ساتھ) (۱۰) السلام ألَیکم۔ یہ سب سلام کے غلط اور غیر مسنون صیغے ہیں، جو ناواقفیت کی وجہ سے لوگ بول دیتے ہیں، علامہ شامی کا فیصلہ یاد رکھیں ولفظ السلام في المواضع کلہا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین، وبدون ہذین کما یقول الجہال، لا یکون سلاماً۔ لفظ سلام ہر جگہ السلامُ علیکم یا سلامٌ علیکمہے، اِن دونوں الفاظ کے علاوہ جتنے الفاظ ہیں وہ سب مسنون سلام نہیں ہیں۔ سلام کے موقع پر ’’علیک السلام‘‘ کہنا ابتدائِ سلام میں نبی کریمﷺ کے تعلیم کردہ الفاظ السلام علیکم یا السلام علیک ہیں، اور آپﷺ ابتدائِ سلام میں علیک السلام یا علیکم السلام کو ناپسند فرمایاکرتے تھے، حضرت جابر بن سُلیم رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول ا للہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو یوں سلام کیا، علیک السلامُ یا رسول اللہ! (آپ نے جواب نہیں دیا) اور کہا: لا تَقُل: علیک السلام؛ فإن علیک السلام تحیۃ الموتیکہ علیک السلام (شروع میں) مت کہا کرو، یہ تو مُردوں کا سلام ہے۔(ابوداؤد، رقم: ۵۲۰۹) مسئلہ: سلام کا آغاز علیک السلام یا علیکم السلام کے ذریعہ مکروہ ہے۔ (عمدۃالقاری: ۱۵؍۳۴۶) مسئلہ: اِس طرح سلام کرنامسنون طریقہ نہیں ہے؛ لہٰذا اِس کا جواب دینا ضروری نہیں؛ ورنہ حضورﷺ پہلے جواب دیتے پھر ادب سکھلاتے؛ لہٰذا اس کا سلام نہ ہونا راجح ہے۔(رد المحتار: ۹؍۵۹۶)