اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چوتھی حکمت - -- رحمت کے جھونکوں سے استفادہ۔ پانچویں حکمت - -- روحِ نبوی سے استفادہ۔( رحمۃ اللہ الواسعۃ:۴؍۳۴۴) درود وسلام کا شرعی حکم سورۃ الاحزاب کی مذکورہ بالا آیت کی وجہ سے تمام فقہاء متفق ہیں کہ زندگی میں ایک بار نبیﷺ پردرود وسلام بھیجنا فرض ہے …پھر امام شافعیؒ کا مذہب اور امام احمدؒ کی ایک روایت یہ ہے کہ نماز میں قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور امام اعظمؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک سنت ہے، اس کو چھوڑدینے سے بھی نماز ہوجائے گی اور جب بھی نبیﷺ کاتذکرہ کیا جائے یاذکر آئے تو ہر دفعہ درود بھیجنا واجب نہیں مستحب ہے، جمہور فقہاء کا یہی مسلک ہے اور ایک مجلس میں بار بار ذکر آئے تو ایک بار درود شریف پڑھنا کافی ہے اور ہر بار باردرود بھیجنا اولیٰ ہے۔(شرح الشفا:۲؍۱۰۷) روضۂ اقدس پر درود افضل ہے یا سلام؟ روضۂ اقدس پر الصلاۃ علیک یا رسول اللہ افضل ہے یا السلام علیک یا رسول اللہ افضل ہے؟ شیخ الحدیث مولانا زکریاصاحبؒ لکھتے ہیں: علامہ باجیؒ کی رائے یہ ہے کہ درود افضل ہے، علامہ سخاویؒ کہتے ہیں: کہ روضۂ اقدس کے پاس کھڑے ہوکر سلام پڑھنا، درود پڑھنے سے افضل ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ما من مسلم یسلم عليَّ عند قبري آیا ہے…لیکن اس ناکارہ کے نزدیک صلاۃ کا لفظ (یعنی درود) بھی کثرت سے روایات میں ذکر کیا گیا ہے؛ اس لیے بندہ کے خیال میں اگر ہر جگہ درود وسلام دونوں کو جمع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، یعنی بجائے السلام علیک یا رسول اللہ، السلام علیک یا نبي اللہکے، الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ، الصلاۃ والسلام علیک یا نبي ا للہاِس صورت میں علامہ باجیؒاور علامہ سخاویؒ دونوں کے قول پر عمل ہوجائے گا۔ (خلاصہ فضائل درود شریف:۲۴) مولف عرض گزار ہے کہ روضۂ اقدس کے علاوہ کہیں اور سے سلام پڑھنا چاہیں تو دونوں کو جمع کرکے الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ پڑھیں؛ تاکہ دونوں فضیلتیں حاصل ہوجائیں۔ روضۂ اقدس پر پڑھا جانے والا ایک سلام السَّلَاُم عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللہِ، السَّلَامُ علیک یا خِیَرۃ اللہِ مِن خَلقِہ، السلام علیک یا حبیبَ اللہِ، السلام علیک یَا سیدَ المرسلین وخاتم النبیین، السلام علیک وعلی آلک وأصحابک وأہل بیتک وعلی النبیین وسائر الصالحین، أشہد أنک بلّغتَ الرسالۃَ، وأدّیتَ الأمانۃ، ونصحتَ الأمۃَ، فجزاک اللہُ عنا أفضل ما جزی رسولا عن أمتِہ۔(الاذکار:۲۳۴) صلاۃ وسلام کے الفاظ، غیر انبیاء کے لیے جائز یا ناجائز؟ جمہور علماء کی رائے یہ ہے: کہ ان الفاظ کا استعمال صرف انبیاء کے لیے مخصوص ہے؛ معلوم ہوا کہ جو لوگ حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہماکے ساتھ علیہ السلام لکھتے ہیں وہ ٹھیک نہیں؛ لہٰذا انبیاء کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لیے ان الفاظ کو استعمال کرنا جائزنہیں ہے؛ البتہ دوسرے لوگوں کے اسماء کے ساتھ رضی اللہ عنہ، غفر اللہ، رحمہ اللہ وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے جائیں، ہاں اگر انبیاء کے