اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روایت ذکر کی ہے، جس میں حضرت کعب ابن مالکؓ کی توبہ کی قبولیت کا تذکرہ ہے، اس میں ہے: حتی دخلتُ المسجد؛َ فإذا برسول اللہﷺ حولہ الناس، فقام إليَّ طلحۃ بن عبید اللہ یہرول حتی صافحني وہنأني۔ میں مسجد میں آیا، حضورﷺ کے ارد گرد لوگوں کو موجود پایا، حضرت طلحہ میری جانب لپکے اور مصافحہ کیا، مبارک بادی پیش کی۔(الأدب المفرد، رقم: ۸۸۰) (۳) فتح مکہ کے موقع پر حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ مکہ چھوڑ کر یمن چلے گئے تھے، اُن کی بیوی نے اُن کے لیے پناہ مانگی، آپ نے پناہ دے دی، اُن کی بیوی ان کے پاس پہنچیں اور انہیں مسلمان بنا کر مکہ لے آئیں، فلمَّا رآہ النيﷺ وثب إلیہ فرحا وما علیہ رداء،جب نبیﷺ نے اُن کو دیکھا تو آپ چادر کے بغیر اُن کی طرف بڑھے اور ان کو خوش آمدید کہا اور بھاگ کر جہاں تک پہنچے تھے وہاں سے نبیﷺ کے پاس لوٹنے کو ہجرت قرار دیا۔(ترمذی، رقم: ۲۷۳۷) (۴) حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ سے منقو ل ہے: میں جب حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ میرے لیے کھڑے ہوجاتے یا اپنی جگہ سے ہل جایا کرتے تھے ۔ (بذل المجھود:۱۳؍۶۰۱، شعب الایمان، رقم: ۸۹۳۱) ملحوظہ: اس سلسلے کی مزید روایتوں کے لیے، شرح النووی دیکھی جائے، نیز حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اِس حوالے سے بڑی اچھی بحث کی ہے اور علامہ نوویؒ کا طرز استدلال اور ابن الحاجؒ کا طرزِ جواب، فتح الباری میںدیکھنے کے لائق ہے۔ الغرض: نفس قیام ممنوع نہیں؛ بلکہ قیام کی چاہت ممنوع ہے، والمنہی عنہ محبۃ القیام۔ حضرت سعد بن معاذؓ کی حدیث: طرز استدلال اور صحیح تحقیق غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ ؓ بیمار تھے اور مدینہ منورہ میں مقیم تھے، فوج کے ساتھ نہیں آئے تھے، پھر جب بنو قریظہ ان کے فیصلے پر راضی ہوئے تو نبیﷺ نے ان کو بلوایا وہ گدھے پر سوار ہوکر آئے، جب نبیﷺ کے قیام گاہ کے قریب پہنچے تو آپ نے اُن کے قبیلے کے لوگوں سے فرمایا: قوموا إلی سیّدکم اپنے سردار کی طرف اٹھو۔(بخاری،رقم: ۶۲۶۲) یہ حدیث قیام تعظیمی کے جواز پر دلالت کرتی ہے یا نہیں، یعنی کیااِس حدیث سے یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ کوئی بڑا آدمی مجلس میں آئے تو تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے جیسا کہ حضورﷺ نے کھڑے ہونے کا حکم دیا یا نہیں؟ امام بخاریؒ نے باب قول النبيﷺ: قوموا إلی سیدکم کا باب باندھا ہے؛ لیکن خود انہوں نے کوئی یقینی بات صراحۃً نہیں بیان کی ہے؛ تاہم شُراحِ حدیث نے اس پر گفتگو کی ہے، ابوداؤدؒ نے اِس روایت کو بابٌ فی القیام کے تحت ذکر کیاہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جواز قیام تعظیمی کو ثابت کیا ہے۔(۱) بذل میں شیخ سہارن پوریؒ نے لکھا ہے: احتج بہ المصنف والبخاري ومسلم علی مشروعیۃ القیام وقال مسلم: لا أعلم في قیام الرجل للرجل حدیثا أصح من ہذا۔ خلاصہ یہ کہ کچھ لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قیامِ تعظیمی مستحسن ہے، اس کے برخلاف کچھ محدثین کی