اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وغیرہ سماجی تعلقات کے دائرے میں آتے ہیں، اِن کا تبادلہ جائز ہوگا۔ عالمگیری میں ہے: ذمی کافروں کو سلام کرنے کے سلسلے میں مشائخ کا اختلاف ہے، بعض نے کہا ہے کہ سلام کرسکتا ہے، اور بعض نے کہا: اگر کوئی ضرورت پیش نہ آئے تو سلام نہ کرے اور اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(ہندیہ:۵؍۳۲۵) یہ ضرورت وحاجت والی قید آپ فقہاء احناف کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں؛ اس ’’ضرورت وحاجت‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ سماجی واقتصادی ضرورت کے تحت اُن سے سلام ودعا کا تعلق رکھ سکتے ہیں۔ ابن حجرؒ کی بات کا خلاصہ پڑھیے: اوپر جو تفصیل آئی کہ غیر مسلموں کو سلام نہ کیا جائے، یہ اُس وقت ہے جب ابتداء ً کوئی مسلمان بلا ضرورت سلام کرے؛ لیکن اگر کوئی ملکی یا ملی مصلحت وضرورت ہو یا غیر مسلموں سے دوستانہ تعلقات ہوں یا مُجاوَرت وپڑوس کا رشتہ ہو یا کوئی انسانی واخلاقی تعلقات ہوں؛ تو ایسی صورتوں میں ’’السلام علیکم‘‘کے علاوہ دوسرے عمومی الفاظ کہہ سکتے ہیں، جس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو مثلا: السلام علینا وعلی عباد ا للہ الصالحینکہہ سکتے ہیں، آپ نے ہرقل نامی بادشاہ کو خط میں سلامٌ علی من اتبع الہدی لکھا تھا؛ چناں چہ ابن ابی شیبہ(۱) میں ہے: (۱)یہ حدیث اصل کتاب میں یوں ہے: إذا دخلت بیتا فیہ المشرکون فقل: السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین،مصنف ابن أبي شیبۃ:۲۵۹۸۹۔ إذا سلمت علی المشرکین، فقل: السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین؛اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ (سماجی) تعلقات بر قرار رہیں گے۔ ابن حجر ؒنے آگے ایک روایت نقل کی ہے: حضرت علقمہؒ کہتے ہیں: کہ میں حضرت ابن مسعودؓ کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا، راستے میں ایک دہقانی ہمارے ساتھ ہوگیا، جب اُس کا اصل راستہ آگیا تو وہ ادھر کو چلا گیا؛ چناں چہ ابن مسعودؓ نے اس کے پیچھے نگاہ دوڑائی اور کہا: السلام علیکم میں نے پوچھا: کیا آپ انہیں ابتداء ً سلام کرنا مکروہ نہیں سمجھتے، انہوں نے کہا: کیوں نہیں مکروہ سمجھتا ہوں ولکن حق الصحبۃ؛ لیکن یہ حق رفاقت ہے۔(۱) (فتح الباری:۱۳؍۵۱) کیا یہودونصاریٰ کو سلام نہ کرنے کا حکم وقتی تھا؟ ایک تحقیق امام ترمذیؒ نے لا تبدأوا الیہود والنصاریٰ بالسلام والی روایت سنن ترمذی میں نقل کی ہے: (دیکھیے حدیث: ۱۵۹۵) اِس حدیث کی تشریح اوپر گذری، امام ترمذیؒ نے پہلے ٹکڑے کی وجہ یہ لکھی ہے: قال بعض أہل العلم: إنما معنی الکراہۃ؛ لأنہ یکون تعظیما لہم، وإنما أمر المسلمون بتذلیلہم۔یعنی ممانعت کی وجہ صرف یہ ہے کہ سلا م میں پہل کرنے میں ان کی تعظیم ہے اور مسلمانوں کو اُن کی تذلیل کا حکم دیا گیا ہے، اور دوسرے ٹکڑے یعنی اُن کو دائیں بائیں ہٹنے پر مجبور کرو، اس کی بھی یہی وجہ بتائی ہے کہ اگر اُن کو راستہ دیں گے تو اس میں اُن کی تعظیم ہوگی، عموماً دوسرے شارحین نے بھی مذکورہ حدیث کی یہی وجہ لکھی ہے، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب نے اِس علت اور وجہ پر ایک