اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
درجے کی محبت (۱) صاحبِ احسن الفتاویٰ کوحضرت کی اِس توجیہ پر تین وجوہات کی وجہ سے اطمینان نہیں ہے، اہلِ ذوق دیکھ سکتے ہیں احسن الفتاویٰ۸؍۴۱۰۔ کے تقاضہ سے کیا ہے، نہ کہ استحباب اور تکملۂ سلام کی حیثیت سے؛ لہٰذا اگر نفسانی اور شیطانی ہیجان اور شہوت کا اندیشہ نہ ہو تو غلبۂ محبت میں معانقہ کرنا جائز ہے، یہی بات تقبیل کے بارے میں کہی جائے گی۔ التقبیل والاعتناق قد یکونان علی وجہ التحیۃ کالسلام والمصافحۃ، وہما الذان نہی عنہما في الحدیث۔ (اعلاء السنن:۱۷؍۴۲۳) (۴) شیخ ابو منصور ما تریدیؒ فرماتے ہیں: جو معانقہ برے خیالات اور جنسی جذبات کے تحت ہو وہ مکروہ ہے، اورجس معانقہ کاتعلق محبت واکرام کے جذبہ سے ہو وہ بلا شک وشبہ جائز ہے، وفي العنایۃ: ووفق الشیخ أبو منصور بین الأحادیث فقال: المکروہ من المعانقۃ ما کان علی وجہ الشہوۃ (۱) فأما علی وجہ البر والکرامۃ إذا کان علیہ قمیص واحد فلا بأس بہ۔(رد المحتار:۹؍۵۴۶) (۵) الخلاف في المعانقۃ في إزار واحد، أما إذا کان علیہ قمیص أوجبۃ لا بأس بہ بالإجماع وہو الصحیح یعنی معانقہ کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ جسم پر کپڑے نہ ہوں(۲) بدن پر قمیص وجبہ وغیرہ ہو اور معانقہ کیاجائے تو (۱) لیکن اس پر اشکال ہوتا ہے کہ اس صورت میں مظنہ شہوت کے سبب مصافحہ بھی جائزنہیں؛ جیساکہ علامہ شامیؒ نے تصریح کی ہے (وإن کان صبیحا فحکمہ حکم النساء، رد المحتار: ۵؍۲۳۳، نعمانیہ) تو معانقہ کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں، فتاوی ریاض العلوم:۲؍۱۶۹۔ .4(۲) اس توجیہ پر مولانا ظفر احمد تھانویؒ کو تعجب کے ساتھ اعتراض ہے کہ اس کامطلب تو یہ ہوا کہ اگر بدن پر کپڑے ہوں اور شہوت کا اندیشہ ہو تب بھی جائز ہوگا؛ حالاں کہ یہ صورت بھی ممنوع ہوگی، .4وأعجب منہ أن قال: قالوا: الخلاف في المعانقۃ في إزار واحد، وأما إذا کان علیہ جبۃ فلا بأس بہا بالإجماع وہوالصحیح الخ۔ لأنک قد عرفت أن لا تعرض في کلامہ للإزار والجبۃ ولا فرق بین الحالتین من جہۃ النظر؛ لأن الرجل إن کان ممن یشتہي فلا فرق بین کون الجبۃ علیہ وعدمہ فيمظنۃ الشہوۃ وإلا فلا فرقَ بینہما في عدمہا؛ فہذا توجیہ لکلامہم بحیث لا یرضونہ، .4اعلاء السنن:۱۷؍۴۲۳۔ اِس میں کوئی اختلاف نہیں؛ بلکہ بالاتفاق جائز ہے۔(رد المحتار:۹؍۵۴۶) (۶) علامہ نوویؒ کی رائے یہ ہے کہ معانقہ سے ممانعت عام حالات میں ہے اور مشروعیت وجواز، سفر سے آنے کے وقت ہے۔ وأنہ لا بأس بہ عند القدوم (۱) من سفر وغیرہ، ومکروہ کراہۃ تنزیہ في غیرہ۔ (الأذکار:۳۰۲) دوسری روایت (۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں: حضرت زید بن حارثہؓ کسی سفر سے لوٹ کر مدینے پہنچے، اُس وقت نبی کریمﷺ میرے گھر میں تھے، حضرت زیدؓ آپ سے ملنے آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، نبی کریمﷺ اُن کی طرف اٹھے، اِس حال میں کہ آپ کا بدن کھلا ہوا تھا اور آپ اپنا کپڑا گھسیٹ رہے تھے، صدیقہؓ فرماتی ہیں: بخدا میں نے آپ کو اس سے پہلے اور اِس کے بعد کبھی کسی سے اِس طرح کھلے بدن ملتے نہیں دیکھا، آپ نے حضرت زید سے معانقہ کیا اور اُن کو چوما۔ (ترمذی، رقم: