اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چومتے ہیں اور آنکھوں سے لگاتے ہیں، یہ کیسا ہے؟ مذکورہ بالا مسئلہ میں فقہاء کی تحقیق یہ ہے کہ انگوٹھوں کو عند التشہد چومنا بدعت ہے؛ کیوں کہ اکثر لوگ اس کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور تارک پر ملامت کرتے ہیں اور وہ موقوف ہے روایت پر اور اس بارے میں کوئی روایت صحیحہ موجود نہیں، یہ لوگ اُس ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہیں، جس میں موجود ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی ا للہ عنہ عند التشہد اپنے انگوٹھوں کو (۱) ذکر الدیلمي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق أنہ لما سمع قول المؤذن ’’أشہد أن محمداً رسول اللہ‘‘ قال مثلہ، وقبل بباطن الأنملتین السبابۃ، ومسح عینیہ، فقالﷺ: من فعل مثل ما فعل خلیلي، فقد حلت علیہ شفاعتي ’’ولم یصح‘‘ ، تذکرۃ الموضوعات، باب الأذان: ۳۴۔ چومتے تھے اور کہتے ہیں کہ حدیث ضعیف باب فضائل میں قابل عمل ہے۔ ا س کا جواب یہ ہے کہ فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے لیے بھی محدثین کے یہاں کچھ شرطیں ہیں؛اگر وہ شرطیں نہیں پائی گئیں تو حدیث ضعیف فضائل میں بھی غیر مقبول ہوگی اور وہ شرطیں یہ ہیں: ثواب سمجھے بغیر عمل کرے،اُس کا ضعف شدید نہ ہو، وہ کسی اصل شرعی کے تحت داخل ہو، کما صرح بہ فيالدر المختار:۱؍۱۲۸: شرط العمل بالحدیث العضیف، عدم شدۃ ضعفہ، وأن یدخل تحت أصل عام وأن لا یعتقد سنیۃ ذلک۔اور زیر بحث مسئلہ میں کوئی بھی شرط نہیں پائی جارہی ہے؟ اس لیے اس حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز نہ ہوگا۔(خلاصہ امداد الاحکام،کتاب السنۃ والبدعۃ: ۱؍۱۸۸) دوسری جگہ علامہ شامیؒنے صرف اذان میں آپﷺ کے اسم مبارک پر انگوٹھا چومنے کے استحباب کی ایک عبارت کنز العباد، قہستانی وغیرہ سے نقل کی ہے، اذان کے علاوہ دوسرے اوقات میں علامہ شامیؒ نے خود اس کی تردید کو بھی نقل کیا ہے، اور جوعبارت اذان کے متعلق نقل کی ہے اُس کے بارے میں فرماتے ہیں: اِس کا ثبوت کسی حدیث سے نہیں؛ لہٰذا اِس کے سنت ہونے پر کوئی دلیل نہیں، اور چوں کہ عوام اِس کو سنت سے بھی بڑھ کر ضروری سمجھتے ہیں اور تارکین کو ملامت کرتے ہیں؛لہٰذا اِس کاترک کرنا ضروری ہوگیا۔(شامی:۱؍۲۶۷) مولانا یوسف لدھیانوی صاحب ؒلکھتے ہیں: جس شخص نے یہ روایت گھڑی ہے، اُس نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہ نہیں سوچا کہ اذان واقامت دن میں ایک مرتبہ نہیں؛ بلکہ روزانہ دس مرتبہ دہرائی جاتی ہے، اب اگر اذان واقامت کے وقت انگوٹھے چومنا سنت ہوتا، تو جس طرح اذان واقامت مسلمانوں میں متواتر چلی آئی ہے اور مناروں پر گونجتی ہے، اسی طرح یہ عمل بھی مسلمانوں میں متواتر ہوتا، حدیث کی ساری کتابوں میں اِس کو درج کیا جاتا ہے اور مشرق ومغرب تک پوری امت اِس پر عمل پیرا ہوتی۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم: ۱۰۵) فتاویٰ ریاض العلوم میں ہے: بدعت وناجائزہے، اَسلاف یعنی صحابہ وتابعین کے تعامل کے خلاف ہے، حدیث میں تو یہ ہے کہ جو موذن کہے وہی تم بھی کہو؛ مگر یہ کہیں نہیں کہ انگوٹھا چومو۔(۱؍۲۷۰)