اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وقت ہی ہوگا، یعنی سلام سے تو صرف ملاقات وغیرہ کریں گے۔ رہ گئی تیسری رائے تو زیادہ ظاہر ہے؛ کیوں کہ ہر قسم کے عیوب ونقائص اور شروروفتن سے سلامتی، جنت کے اعلیٰ اوصاف میں سے ہے،اور دائمی ہے اور اُس سلامتی کے بغیر وہاں کی کوئی نعمت تام نہیں ہوسکتی؛اس لیے یہ تیسری رائے اظہر ہے۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۳۴) السلام علیکم جملہ خبریہ ہے یا انشائیہ ؟ فإذا قال: سلام علیکم تضمن الإخبار بحصول السلامۃ، والإنشاء للدعاء بہا وإرادتہا وتمنیہا، یعنی السلام علیکم جملہ خبریہ اور انشائیہ دونوں ہوسکتا ہے، اگر السلام علیکم کے ذریعہ حصولِ سلامتی کی خبر اور اطلاع دی جارہی ہے کہ تمہیں سلامتی حاصل ہو چکی ہے تو یہ خبریہ ہے اور اگر اِس سے مقصود سلامتی کی دعا اور اُس کی تمنا ہے کہ اللہ تمہیں سلامت رکھیں تو انشائیہ ہے۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۴۰) بوقت ملاقات ’’السلام علیکم‘‘ ہی کیوں؟ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوں میں سلام ودعا کے لیے أنعم صباحا یا صبحک اللہ بخیر، مساک اللہ بخیر جیسے الفاظ رائج تھے، یہ اور دوسری قوموں میں جو دعا وسلام کے الفاظ تھے وہ سب وقتی اور عارضی دعا پر مشتمل تھے، اور سب کا مقصود، حیات اور بقاء ِحیات کی دعا تھی؛اسی لیے ایسی دعاؤں کوتحیہ کہا گیا؛ کیوں کہ تحیہ، حیات بمعنی زندگی سے مشتق ہے، اور موجودہ دور میں Good Night, Good Morning وغیرہ بھی وقتی دعا کے لیے ہیں، جامعیت اِن میں مفقود ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ اسلام کے لیے جب تحیہ کا انتخاب کیا تو السلام علیکم کا انتخاب کیا جو تمام تحیات وادعیہ سے زیادہ جامع اور پائیدار ہے؛ کیوں کہ سلام کا مطلب سلامتی کی دعا ہے اور سلامتی ایک ایسی چیز ہے کہ اُس کے بغیر حیات اور بقاء حیات اور زندگی کی ساری تگ ودَو بیکار ہے، سلامتی ہے تو زندگی خوش گوار ہے؛ کیوں کہ انسانی زندگی کا بنیادی مقصد دو چیزیں ہیں: شرور ومضرت سے سلامتی اور ہر طرح کی منفعت اور خیر وبھلائی کا حصول،اور اِن دونوں میں شرور سے سلامتی اور حفاظت اصل ہے، قاعدہ ہے دفعِ مضرت، جلبِ منفعت پر مُقَدَّم ہے، السلامۃ من الشر مقدمۃ علی حصول الخیر؛ یہی وجہ ہے کہ انسان کی اولین ترجیح، سلامتی ہوتی ہے اور انسان ہی کیا، ہر جاندار پہلے سلامتی کی فکر کرتا ہے پھر خیر وبھلائی کے لیے کوشاں ہوتا ہے، لہٰذا إنما یہتم الإنسان؛ بل کل حیوان بسلامتہ أولاً ثم غنیمتہ ثانیاً؛ علاوہ ازیں اگر کسی کو سلامتی حاصل ہوگئی تو ضمناً خیر ومنفعت بھی حاصل ہوجائے گی اور اگر سلامتی حاصل نہیں ہوئی تو ہلاکت وبربادی اور نقصان وضعیفی مُقَدَّر ہوگی؛ الغرض السلام علیکم سلامتی کی دعا، ہر طرح کی برائیوں سے نجات اور ہر قسم کی بھلائیوں کے حصول پر مشتمل ہے اور یہ وقتی اور عارضی نہیں ہے؛ بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے؛اِسی لیے جملہ اسمیہ کا انتخاب کیا گیا ہے؛ کیوں کہ عربی گرامر میں جملہ اسمیہ، دوام واستمرار کے لیے ہوتا ہے، سچ ہے اللہ الملک القدوس السلام کا ہر فعل مبنی برحکمت ہوتاہے، ایسی حکمت اور ایسے رموز واشارات کیا کسی انسانی دعا وسلام میں بھی ہیں؟ فللہ الحمد۔ پھر سونے پر سہاگہ یہ ہواکہ السلام’’ اللہ ‘‘ کا نام بھی ہے تو دعا سلامتی کے ساتھ ساتھ ذکرِ خداوندی بھی ہے۔(بدائع الفوائد بحذف واضافۃ:۲؍۱۴۵)