اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں خوشی کا اظہار کریں، ایک دوسرے پر لطف ومہربانی کریں، چھوٹا بڑے کی برتری پہچانے، بڑا چھوٹے پر مہربانی کرے، اور ہم زمانہ لوگوں میں بھائی چارہ قائم ہو، اگر یہ باتیں نہیں ہوں گی تو رفاقت کچھ سود مند نہیں ہوگی اور اِس کا خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ پھر ضروری ہے کہ جذبۂ خیر سگالی وخیر اندیشی کے اظہار کے لیے اور مخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص لفظ متعین کیا جائے، ورنہ وہ جذبہ ایک مخفی چیز ہوگا، جس کو قَرائن ہی سے پہچانا جاسکے گا، اولِ وہلہ میںاُس کا پتہ نہیں چلے گا؛ چناں چہ دنیا کی تمام متمدن اَقوام نے اپنی صواب دید کے مطابق تحیہ کا طریقہ متعن کیا ہے، جو بعد میں اُن کی ملت کا شعار بن گیا اور اہل ملت کی اس سے پہچان ہونے لگی، مثلا: زمانۂ جاہلیت میں عرب بوقتِ ملاقات کہتے تھے: أنعم اللہ بک عینا:اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے اور أنعِم صباحاً صبح بخیراور مجوسی کہا کرتے تھے :ہزار سال بزی: ہزار سال جیو! اور قانونِ اسلام کا تقاضہ یہ تھا کہ ِاس سلسلے میں انبیاء اور فرشتوں کی سنت اپنائی جائے اور کوئی ایسا کلمہ متعین کیا جائے جو ذکر اور دعا ہواور وہ دنیوی زندگی پر مطمئن کرنے والا نہ ہو، یعنی اس میں درازیٔ عمر اور دولت کی فراوانی کی دعا نہ ہو، نہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس میں تعظیم میں اتنا مبالغہ ہو کہ اُس کی حدود، شرک سے مل جائیں مثلا سجدہ کرنا یا زمین چومنا، ایساتحیہ سلام ہی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ:۲؍۱۹۶، اشرفیہ دیوبند، رحمۃ اللہ الواسعہ:۵؍۵۴۲) جنت کی اضافت ،سلام کی طرف اس اضافت کے سلسلے میں تین اقوال ہیں: (۱) أحدہا أنہا إضافۃ إلی مالکہا السلام سبحانہ یعنی سلام اللہ کا نام ہے اور جنت اللہ نے بنائی ہے تو جنت کی اضافت، جنت کے مالک کی طرف ہوئی (۲) الثاني أنہا إضافۃ إلي تحیۃ أہلہا؛ فإن تحیتہم فیہا سلام یعنی جنت کی اضافت اہلِ جنت کے تحیہ یعنی سلام کی جانب ہے؛ کیوں کہ اہل جنت کا جنت میں تحیہ، سلام ہی ہوگا (۳) الثالث أنہا إضافۃ إلی معنی السلامۃ أي دار السلامۃ من کل آفۃ ونقص وشر،یعنی جنت کی اضافت سلام کے مفہوم ومعانی کی جانب ہے اور مطلب یہ ہوا کہ جنت ہر قسم کے عیوب وآفات سے محفوظ ہے، ان تینوں آراء میں سے کون سی رائے راجح ہے، اس سلسلے میں ابن قیمؒ لکھتے ہیں: والثلاثۃ متلازمۃ وإن کان الثالث أظہر ہا یعنی پہلی رائے کمزور ہے اس معنی کر کہ ایسی صورت میںاللہ کے ناموں میں سے اور ناموں کی طرف بھی جنت کی اضافت جائز ہوتی اور دار اللہ، دار الرحمان وغیرہ بھی کہنا صحیح ہوتا ؛ حالاں کہ ایسا نہیں ہے اور جہاں قرآن میں جنت کی اضافت کی گئی ہے تو وہ اضافت جنت کی صفت یا اہلِ جنت کی طرف ہے مثلا: دارالقرار، دار الخلد، جنۃ المأویٰ، دار المتقین وغیرہ، اِسی طرح دوسری رائے بھی کمزور ہے،جس کی دو وجہیں ہیں: ایک یہ کہ جنت کی اضافت ایسی چیز کی طرف ہونی چاہیے جو جنت کے ساتھ ہی خاص ہو مثلا خُلد، قرار اور بقاء وغیرہ؛ حالاں کہ سلام، یہ ایسا تحیہ ہے جو دنیا وآخرت دونوں کے درمیان مشترک ہے، دوسری بات یہ کہ جنت میں ایسا تحیہ ہونا چاہیے جو تحیہ سلام سے زیادہ جامع اور مکمل ہو، اُسے صفتِ دوام وبقاء حاصل ہو؛ کیوں کہ جنت کی چیزیں دائمی ہوں گی اور تحیہ تو جنت میں صرف زیارت وملاقات کے