اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پیشاب سے فارغ ہو کر ڈھیلا وغیرہ استعمال کرتے وقت سلام کرنا مسئلہ: جو شخص پیشاب سے فارغ ہوکر ڈھیلا، پتھراور اینٹ وغیرہ سے استنجاء کررہا ہو تو اسے سلام کرنا درست ہے یا نہیں او راگر کوئی سلام کردے تو جواب دے سکتا ہے یا نہیں؟ مولانا یوسف بنوریؒ لکھتے ہیں: فلم یثبت فیہ من القدماء شيئکہ یہ مسئلہ متقدمین کی کتابوں میں نہیں ہے؛البتہ حضرت مولانارشید احمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں: کہ جواب دے سکتا ہے اور مظاہر علوم کے بانی شیخ محمد مظہر نانوتوی ؒ منع کرتے تھے۔(معارف السنن :۱؍۳۱۷) مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم لکھتے ہیں: ہم حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں؛ کیوں کہ جب ستر کھلا ہوا نہیں ہے تو جواب دینے میں کوئی حرج نہیں۔(تحفۃ الالمعی: ۱؍۳۵۲) تطبیق کی صورت: اور تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جس وقت قطرہ آرہا ہے اس وقت جواب نہ دے، او رجب محض احتیاط کے لیے ڈھیلا رکھا ہے تو جواب دے دے۔(محمودیہ :۹؍۸۲) امداد الفتاوی میں ہے: سوال: استنجا کرتے وقت سلام کرنے یا سلام کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟ الجواب: فقہاء نے پیشاب کرتے وقت سلام کرنے کو مکروہ لکھا ہے، استنجا کرتے وقت اگر تَقَاطُرِ بول یعنی پیشاب کے قطرے گرتے ہوں تو اس حکم کی رو سے اس وقت بھی سلام مکروہ ہے اور اگر تقاطر بول نہ ہو تو پھر بھی بے ا دبی سے خالی نہیں؛ اِس لیے ایسے مواقع پر سلام کرنے سے اجتناب کیا جائے اور اگر کوئی سلام کرے تو استنجا کے بعد جواب دے؛ کیوں کہ سلام کے جواب میں تاخیر جائز ہے۔(امداد الفتاوی:۱؍۸۹،کتاب الطہارۃ) لیکن دوسری جگہ حضرت نے مطلقاً جائز لکھا ہے: سوال: (۳۶۱) استبراء کرتے وقت سلام کا جواب دینا یا خود سلام کرنا چاہیے یا نہیں، حدیث شریف میں تو إذا یبول(۱) کا لفظ آیا ہے پھر لوگ استنجاء کرتے وقت سلام کا جواب کیوں نہیں دیتے، آیا یہ اُن کی غلط فہمی ہے یا کچھ اصل بھی ہے، علاوہ بریں حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے (۱) غالباً اس حدیث کی جانب اشارہ ہے: عن ابن عمر قال: مرّ رجل علی النبيﷺ وہو یبول، فسلم علیہ فلم یرد علیہ۔مسلم ، رقم: ۸۲۳ ، المصَنَّف:۶؍۱۳۹ کہ حائضہ بھی سلام کرتیں اور سلام کا جواب دیتی تھیں، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقاطر مانع تحیت ( سلام کو روکنے والا) نہیں۔ الجواب: في الدر المختار: أول باب مفسدات الصلاۃ: سلامک مکروہ علی من ستسمع إلی قولہ فہذا ختام والزیادۃ تنفع۔ اِن اَبیات میں مواضع کراہت سلام کو شمار کیا ہے؛ مگر اس میں یہ حالت معدود نہیں اور تامُّل سے اور بھی کوئی دلیل منع کی نہیں؛پس ظاہراً یہ بلا سند محض رسم پڑگئی ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم (امداد الفتاوی: ۴؍۲۷۹) وضو کرنے والے کو سلام کرنا