اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اڑانے کے مترادف ہوگا، خواہ مخواہ اس کی مفلسی اور بے بسی وبے کسی، دوسروں کے سامنے رسوا ہوگی، اور دوسری صورت میں دونوں بھوکے رہ جائیں گے، نیز ایثار کا حکم تو دونوں کو ہے، ایثار یہی گذرنے والا ہی کیوں نہ اختیار کرلے۔ موجودہ معاشرہ کے اعتبار سے، اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنا ذرا مشکل ہے، اولاً ایثار وخلوص کا فُقدان ہے، ثانیاً لوگ اپنے گھروں میں کھانا کھاتے ہیں، ثالثاً دینی علم کی کمی ہے اور پچھلے زمانوں میں عموماً یہ سب باتیں نہیں تھیں اور غالباً یہ فقہی مسئلہ، سفر کا ہے، جس میں کوئی مسافر کبھی اس صورت حال سے دو چار ہوجاتا تھا، بتائیے فقہاء کا بیان کردہ یہ جزئیہ عقل وشرع کے خلاف ہے یا عین موافق ہے، کسی بھی مسئلہ کے ایک پہلو کو نہیں؛ بلکہ تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے۔ مولف نے قصداً اس تفصیل کو ذکرکیا ہے؛ کیوں کہ ہمارے کچھ بھائیوں نے فقہاء احناف کے بیان کردہ اس جزئیہ پر بہت واویلا مچایا ہے، کاش انہیں اس تفصیل سے اطمینان ہوجائے۔ مسئلہ: جہاں بے تکلف دوست واحباب کھانا کھارہے ہوں یا گھر کے افراد کھانا کھارہے ہوں، یا رتبے اور عمر میں چھوٹے کھانا کھارہے ہوں، ایسی جگہوں میں یہ تفصیل نہیں ہے؛بلکہ سلام کرسکتے ہیں، کوئی حرج نہیں۔ دعاؤں میں مشغول شخص کو سلام کرنا سلام کرنا مسنون عمل ہے؛ لیکن اگر سلام کرنے سے کسی کی دل جمعی اور توجہ إلی اللہ میں فرق آجائے، تو سلام نہ کرنا بہتر ہے؛ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کررہا ہے، اہنماک واستغراق کی کیفیت طاری ہے، جو دعا میں مطلوب ہے، دل خدا کی جانب مائل ہے، دنیا وما فیہاسے بے خبر ہے، ایسے شخص کو سلام نہ کرنا بہتر ہے۔ علامہ شامیؒ نے اس کی تصریح کی ہے، علامہ نوویؒ نے لکھا ہے: أما إذا کان مشتغلاً بالدعاء، مستغرقا فیہ، مُجمع القلب علیہ…والأظہر عندي في ہذا: أنہ یکرہ السلام علیہ؛ لأنہ یتنکد بہ۔(الأذکار: ۲۸۷) تلبیہ پڑھنے والے کو سلام کرنا جن مواقع پر سلام کرنا مکروہ ہے،اُن میں سے ایک موقع یہ بھی ہے کہ جو حاجی، حج یا عمرہ کاتلبیہ (اللہم لبیک، اللہم لبیک، لا شریک لک لبیکالخ پڑھنے میں مشغول ہے تو اسے سلام کرنا مکروہ ہے؛ کیوں کہ سلام کرنے سے اس کی توجہ، اللہ کی جانب سے ہٹ جائے گی، نیز جواب دے گا تو تلبیہ موقوف کرنا پڑے گا، اور یہ مکروہ ہے۔(الأذکار: ۲۸۷) قاضی، مفتی، امیر اور افسر کو سلام کرنا اسلامی مملکت میں قاضی، مفتی، حاکم اور افسران کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ان کی وجہ سے نظامِ مملکت ِاسلامی، چست ودرست رہتا ہے، ان کی غفلت وسستی، قوم کو ہلاک وبرباد کردیتی ہے، اور آج بھی جہاں اسلامی حکومتیں نہیں ہیں، وہاں حاکم وافسران تو نہیںہیں؛ لیکن قاضی ومفتی ہر جگہ ہوتے ہیں، فقہاء نے اُن کے کام کی اہمیت ونزاکت کو دیکھتے ہوئے سلام وجوابِ سلام کے مسائل لکھے ہیں۔ جب قاضی دارالقضاء میں اپنی جگہ فیصلے کے نمٹارے کے لیے بیٹھ جائے اور قضا سے متعلق کاموں میں مصروف ہوجائے تو اب وہ نہ کسی کو سلام کرے اور نہ ہی