اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بڑا متفکر نظر آتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ کوئی مسلمان ملے کہ اسے سلام کرے؛ تاکہ وہ جواب میں وعلیکم السلام کہہ کر مجھے سلامتی کی دعا دے، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ پڑھیے، کیا غضب کی محبت تھی حضور سے اور کتنا کامل درجے کا یقین تھا، حضورﷺ کی دعاؤں کی قبولیت پر، واقعہ پڑھیے۔ ایک مرتیہ نبی پاکﷺ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے، آپ نے سلام برائے اجازت کیا، کوئی جواب نہیں ملا، آپ نے دوبارہ سہ بارہ سلام کیا؛ لیکن کوئی جواب نہیں ملا (چوں کہ اجازت کے لیے تین مرتبہ سلام کافی ہے) تو آپ نے کہا: قَضَینَا ما عَلَینَا، ہم نے اپنا کام کرلیا اور واپس ہوگئے (تھوڑی دیرکے بعد) حضرت سعد بن عبادہ حضورﷺ کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ! والذي بعثک بالحق، ما سلمتَ من مرۃ إلا وأنا أسمعُ وأرد علیک یعنی اے اللہ کے پیغمبر! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ نے جتنی مرتبہ سلام کیا، میں نے سنا اور آہستہ (۱) سے جواب دیا، ولکن أحببتُ أن تُکثِر من السلام عليَّ وعلی أہل بیتي لیکن (کیاکروں) میں نے چاہا کہ آپ مجھ پر اور میرے گھر والوں پر بار بار سلام کریں۔(الأدب المفرد: ۱۰۰۸) یعنی اگر پہلی بار کے سلام کا جواب مَیں دے دیتا تو دو مرتبہ مزید، آپ کی زبانِ مبارک سے سلامتی کی دعا کی لا زوال دولت مجھے نہ ملتی، آپ ایک مرتبہ بھی کسی کو سلامتی کی دعا دے دیں تو بالیقین وہ ہر طرح کی آفات ومصائب سے محفوظ رہے گا، تین مرتبہ کی تاثیر کا کیا پوچھنا؟ ایسا خیال اسی شخص کے ذہن میں آسکتا ہے، جس کے نزدیک حضور کی محبت، ہر محبت پر غالب ہو۔رضی اللہ عنہ سنن ابی داؤد میں یہ روایت تفصیل سے ہے، اسی روایت میں یہ ہے کہ حضورﷺ نے جب ان کے جذبۂ محبتِ حقیقی کو دیکھا تو یہ دعادی: اللہم اجعل صلواتک ورحمتک علی آل سعد بن عبادۃ اے اللہ سعد بن عبادہ کے اہل خانہ پر رحمت ومغفرت کی بارش نازل فرما۔(رقم الحدیث: ۵۱۸۵) ملحوظہ: (۱) یہاںیہ بات یادرکھنی چاہیے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا یہ فعل غلبۂ حال کی وجہ سے تھا یہ مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ کوئی سلام کرے اور کوئی عذر نہیں ہے تو جواب دینا چاہیے۔ (۲) اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مرتبہ میں بڑے کو اپنے ماتحت سے کوئی کام ہو یا وہ اپنے گھر بلائے تو بڑے کو جانا چاہیے۔ (۳) اگر غلبۂ محبت کی وجہ سے کوئی ایسا کام ہوجائے جو عموماً نہیں کیا جاتا تو بعد میں عذر بیان کردینا چاہیے۔ (۴) اگر چھوٹے کوئی اچھا کام کریں تو بڑوں کو انہیں دعا دینی چاہیے۔ (۱) چناں چہ ابوداؤد کی روایت میں فردَّ سعدٌ رداً خفیفاً کے الفاظ ہیں۔رقم الحدیث: ۵۱۸۵۔ ۲۰- بوقتِ ملاقات سب سے پہلے سلام --- ایک نبوی ادب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے :کہ جس نے سلام سے پہلے