اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تشریح: السلام علیکمکے ذریعہ دنیا میں، مسلمان ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیتے اورلیتے ہیں، یہ دعا اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ کل قیامت میں بھی اِس سلامتی کی دعا کی ضرورت پڑے گی، پل صراط(۲) پر انبیاء اور امتوں کا شعار: رب سلِّم سلِّم ہوگا، یعنی ہر ایک کی زبان پر یہی دعا ہوگی، اِس حدیث سے معلوم ہوا :کہ پل صراط کامعاملہ بڑا سنگین ہے، اس سے کون پار ہوتا ہے اور کسے آنکڑے کھینچ لیتے ہیں؟ اِس کی کسی کو خبر نہیں؛اِس لیے اس موقع پر ہر شخص انتہائی درجہ گھبرایاہوا ہو گا اور سلامتی کی دعا کررہا ہوگا،اللہ ہمیں پل صراط سے بہ سلامت گذار دے، آمین۔ سلام کا فائدہ دیکھیے: اگر آپ نے کسی سے ملاقات کے وقت’’ہیلو‘‘ کہہ دیا تو آپ کے اِس لفظ سے اُس کو کیا فائدہ ہوا؟ دنیا کا کوئی فائدہ ہوا؟ یا آخرت کا کوئی فائدہ ہوا، ظاہر ہے کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا؛ لیکن اگر آپ نے ملاقات کے وقت یہ الفاظ ’’السلام علیکم ورحمۃ (۱) شعار: علامت، خاص نشان(Motto) نعرہ، وہ عبارت جس سے کوئی جماعت اپنا تعارف کرائے، جیسے مسلمان نعرہ تکبیر لگاتے ہیں یہ مسلمانوں کا شعار ہے، اِسی طرح پل صراط پر مومنین کا شعار رب سلِّم سلِّم ہوگا، تحفۃ الالمعی:۶؍۲۰۲۔ (۲) پل: صراط کاترجمہ ہے: اصل اورترجمہ کو ملا کر ایک لفظ بنایا ہے، اردو میں ایسا بہت ہوتاہے، جیسے آبِ زمزم، پیش امام وغیرہ…قیامت کا دن اِس دنیا کا آخری دن ہے اور جنت وجہنم دوسری دنیا میں ہیں، قیامت کے دن جنت وجہنم کے فیصلے ہوجائیں گے تو لوگ اِس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل کیے جائیں گے، وہ ایک پل (Bridge) کے ذریعہ منتقل کیے جائیں گے، جنتی اُس پار ہوجائیں گے اور جہنمیوں کو آنکڑے جہنم کی طرف کھینچ لیں گے، تحفۃ الالمعنی:۶؍۲۰۲۔ اللہ وبرکاتہ‘‘جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’تم پر سلامتی ہو او راللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں‘‘ تو اِن الفاظ سے یہ فائدہ ہوا کہ آپ نے ملاقات کرنے والے کو تین دعائیں دیں… اور اگر آپ نے کسی کو ’’گڈ مارننگ‘‘ یا ’’گڈایوننگ‘‘ کہا یعنی صبح بخیر، شام بخیر تو اگر اس کو دعاکے معنی پر بھی محمول کرلیں تواِس صورت میں آپ نے جو اُس کو دعا دی وہ صرف صبح اور شام کی حد تک محدود ہے، کہ تمہاری صبح اچھی ہوجائے یا تمہاری شام اچھی ہوجائے؛ لیکن اسلام نے ہمیں جو کلمہ سکھایا و ہ ایسا جامع کلمہ ہے کہ اگر ایک مرتبہ بھی کسی مخلص مسلمان کا سلام اور دعا، ہمارے حق میں اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوجائے تو ان شاء اللہ ساری گندگی ہم سے دور ہوجائے گی اور دنیا وآخرت کی فلاح حاصل ہوجائے، یہ نعمت آپ کو دنیا کی دوسری قوموں میں نہیں ملے گی۔(اصلاحی خطبات:۶؍۱۶۰) مہمان سے سلام ومصافحہ، پُر تپاک انداز میں کیجیے مہمان رزق میں برکت کا سبب ہوتا ہے، اسلامی عقیدہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کا نہیں، اپنا رزق کھاتا ہے، ہاں سبب کوئی دوسرا بن سکتا ہے؛ چوں کہ انسانی جِبِلّت کی تخلیق میں شحُ اور بخل بھی شامل ہے، جس کے تقاضہ سے انسان کبھی مہمان کی آمد سے گھبرا جاتا ہے؛ اسی لیے اسلام نے اِکرامِ ضَیف پر خصوصی توجہ دی ہے اور کہا: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ(۱) گویا اکرام ضیف ایمانی تقاضہ ہے اور صحابہ نے اکرام ضیف کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ ایسی مثالیں دنیا نے کیوں کر دیکھی ہوںگی، وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃ(۲) آیت ایک صحابی کی بے مثال مہمان نوازی پر اُتری؛ حالاں