اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا گیا تو صرف اشارۂ حکم کافی سمجھا گیا، حکم کی تاکید کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ مخاطب کو یہ چیز پہلے سے حاصل ہوچکی ہے، لہٰذا فعل کی تاکید کی کوئی ضرورت نہیں اور ’’سلام‘‘ کے اندر یہ معنی نہیں پیدا ہوئے، اور وہ امر کی شکل میں ہے، خبر کی شکل میں نہیںہے ، تو اُس فعل کی تاکید کی ضرورت پڑی؛تاکہ درود وسلام کاتوازن برقرار رہے، اب صلاۃ میںتکرار کا حصول خبر اور طلب کے ذریعہ ہوا اور ’’سلام‘‘ میں تکرار فعل اور مصدر سے حاصل ہوا، اور فعل کی تاکید، فعل کے تکرار کے مترادف ہوتی ہے؛ الغرض: صلوا میں تاکید پہلے سے ہے ؛اِس لیے مصدر سے تاکید کی ضرورت نہیں اور ’’سلموا‘‘ میں کوئی تاکید نہیں؛ اس لیے تسلیما کے ذریعہ تاکید لائی گئی، ابن قیمؒ یہ لکھ کر آخر میں لکھتے ہیں: فإنہ بدیع جدا فتأملہ۔ (بدائع الفوائد:۲؍۱۸۸) اوپر جو کچھ لکھا گیا ابن قیم کی تحریر کی روشنی میں لکھا گیا ہے، اس کی مزید تفصیل حضرت حکیم الامتؒ کی زبانی سنیے اور پڑھیے: نماز میں تحیہ کے مقرر ہونے کی وجہ جب حکمنامۂ الہٰی کے پڑھنے سے فراغت ہوئی تو حضور الہٰی میں بیٹھ جانے کی اجازت عطا ہوئی،اور اُس سے (نمازی سے) پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے حضور میں کیا تحفہ لائے ہو؟تو اُس وقت دو زانو بیٹھ کر (اس طرح بیٹھنا تعظیم کے لیے ہے چو زانوں ایسانہیں) اس امر کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اے خدا، تعظیمات قلبی اور عبادات بدنی اور مالی کامستحق توہی ہے اور تیرے ہی حضور کے لائق ہے؛ لہٰذا میرا سارا مال وبدن اِس امر کے لیے تیرے حضور میں حاضر ہے۔ التحیات میں حضورﷺ پر سلام مقرر ہونے کا راز نماز میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے واسطے بھی سلام مقرر کیا گیا؛ تاکہ نبی کی یاد دل سے نہ بھلائیں اور اُن کی رسالت کا اقرار کرتے رہیں اور نعمتِ اسلام اور آپ کی تبلیغِ رسالت کی قدر دانی کریں اور اس کے شکریہ میں آپ پر سلام بھیجیں من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ یعنی جو لوگوں کا شکر گزار نہ ہو وہ خدا کا کب شکر کرسکتا ہے، اِس طرح سے آں حضرتﷺ کا کچھ حق (خاص کر ایسے زبر دست محسن کا جن کے کرم سے آج ہم انسان بن گئے، نیز مسلمان اور جنت کے حق دار ہوگئے) ادا ہوجائے گا؛لہٰذا تحیہ میں آں حضرتﷺ پر سلام مقرر ہوا۔ عام مومنین وصُلَحاء پرسلام مقرر ہونے کی حکمت نماز میں السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین میں سلام کو عام کردیا گیا، یعنی ہم پر سلام اور خدا کے نیک بندوں پر سلام، آں حضرتﷺ نے فرمایا: کہ جب بندے کی زبان سے یہ نکلا تو ہر ایک نیک بندے کہ جو آسمان وزمین میں ہیں، سلام پہنچ جائے گا ( ابوداؤد) اِس میں تعمیمِ سلام، حقِ ہمدردی بنی نوع کی بجا آوری کے لیے ہے، اور اپنے اوپر جو سلام ہے یہ آدابِ دعا وسلام میں سے ہے، ورنہ سخت محرومی کی بات ہے کہ دوسروں کے لیے اور عام بندوں کے لیے تو تمام بدیوں، عیبوں، بیمار یوں اور آفتوں سے سلامتی مانگی جائے اور اپنے کو محروم رکھا جائے۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں،ص:۹۸)