اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
۱- تقبیل ومعانقہ اگر شہوت کے ساتھ ہو وہ باتفاق امت اپنی بیوی یا زر خرید کنیز کے علاوہ کسی کے ساتھ جائز نہیں، اسی طرح جب اپنے نفس میں یا دوسری جانب میں شہوت پیدا ہوجانے کا خطرہ ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ ۲- اورجو تقبیل اور معانقہ چھوٹوں پر شفقت یا بزرگوں کی تعظیم واکرام کے لیے ہو وہ باتفاق جائز اور سنت سے ثابت ہے؛ بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی امر منکر یعنی ناجائز کام شامل نہ ہوجائے۔ ۳- اور جہاں تقبیل ومعانقہ بلکہ مصافحہ(اور قیام) میں بھی کچھ منکرات شامل ہوجائیں وہ باتفاق مکروہ ہے، وہ منکرات جو ایسے مواقع میں شامل ہو جاتے ہیں کئی قسم کے ہیں ان کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے؛ تاکہ اُس سے بچ سکیں۔ تقبیل اور معانقہ ومصافحہ میں شامل ہونے والے منکرات ۱- اول یہ کہ جس شخص کو ان امور سے اپنے نفس میں تکبر واِعجاب پیدا ہوجانے کا خطرہ ہو اس کو درست نہیں کہ دوسرے لوگوں کو دست بوسی، قدم بوسی وغیرہ کا موقع دے۔ ۲- دوسرے یہ کہ جس صورت میں یہ خطرہ ہو کہ اس عمل سے دوسرے شخص کو ایذا وتکلیف پہنچے گی تو وہاں ان امور میں سے کچھ یہاں تک کہ مصافحہ بھی جائز نہیں مثلاً جب دیکھے کہ جس سے ملاقات کرنا ہے وہ مشغول ہے یا کسی ضروری کام میں ہے اس وقت اس کے ساتھ معانقہ وتقبیل؛ بلکہ مصافحہ کی کوشش کرنا بھی اُس کی ایذا وتکلیف کا سبب ہوسکتا ہے، ایسی صورت میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ۳- تیسرے جہاں یہ خطرہ ہو کہ جس کی دست بوسی کی جارہی ہے یہ اس کے نفس میں تکبر وغرور پیدا کردے گا تو اس سے اجتناب ضروری ہے؛ خصوصاً دست بوسی اور قدم بوسی اگر کسی مجمع کے اندر ہو تو ایک مفسدہ تو یہی ہے کہ اُس میں وقت بڑا خرچ ہوگا، کام کی ضروری باتوں میں خلل آئے گا، اور دوسرا بڑا مفسدہ یہ ہے کہ جس جگہ اس کی رسم اور عادت ہوجائے تو ہر آنے والا یا تو خواہی نہ خواہی دست بوسی اور قدم بوسی میں اہل مجلس کا اتباع کرے یاپھر سب سے مختلف ہونے کا گویا اعلان کرے جس سے اور بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں۔ ایک قیمتی اور یاد رکھنے والی بات رسول ا للہﷺ اور صحابہ وتابعین کے جو واقعات آپ نے اس رسالہ میں ملاحظہ فرمائے،اُن کو اُسی درجہ میں رکھنا ضروری ہے، جس درجہ میں سنت اور تعامل سلف سے اس کا ثبوت ہوا ہے، اُن تمام روایات وواقعات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کام ہوئے ؛ مگر اتفاقی طور پر کسی ایک دوآدمی نے کرلیے، نہ اس کی عادت تھی، نہ سب مجمع کو یہ کرنا تھا، نہ کوئی کسی کو اِس کی دعوت دیتا تھا اور نہ کوئی کسی کی حرص کرتا تھا، بس اسی سادگی اور عدم پابندی کے ساتھ، جہاں ہوں جائز ودرست ؛ بلکہ مستحب بھی ہوسکتا ہے ، جہاں یہ سادگی نہ رہی، پابندی آگئی یا عادت پڑگئی تو وہ مفاسد سے خالی نہیں اور فقہاء کا یہ ضابطہ معروف ومشہور ہے کہ اگر کسی مستحب کام میں کچھ منکرات شرعیہ شامل ہوجائیں تو اُس مستحب کو بھی چھوڑ دینا واجب ہوجاتا ہے؛ بشرطیکہ وہ سنن مقصودہ میں سے نہ ہو جیسے جماعت نماز کے بعد مصافحہ کو بعض