اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ونقائص ہیں؛ پس جس شخص میں بہت عیوب ہوں وہ ایسے شخص کی کیا ثنا کرے گا جو پاک ہے؛ اِس لیے ہم اللہ ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہی حضورﷺ پر صلاۃ وسلام بھیجے۔ لیکن اس فرق میں ایک حکمت ابن قیمؒ نے لکھی ہے جو ایک عاشقانہ اورمجذوبانہ حکمت ہے، پڑھیے۔ نمازمیں درود در حقیقت اللہ تعالیٰ سے التماس ہے کہ اللہ حضورﷺ پر درود بھیجیں، ظاہر سی بات ہے درخواست میں لفظ غیبت کا ہی استعمال ہوسکتا ہے، اللہم صلّ علیک مقامِ دعا میں کہنا درست نہیں اور جہاں تک حضورﷺ پر سلام کی بات ہے تو وہاں خطاب کا لفظ اس لیے روا رکھا گیا کہ ایک مومن کے دل میں حضورﷺ کی محبت، اُس کے مال، جان اور آل اولاد سے بھی زیادہ ہونی چاہیے، اور یہ محبت اور حضورﷺ کا خیالی تصور دل میں ا یسا ہونا چاہیے کہ گویاآں جناب دل میں ہمیشہ موجود ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے: مثالک في عیني وذکرک في فمي ٭ ومثواک في قلبي، فأین تغیب تمہارا تصوراتی جسم میری نگاہوں میں ہے، تمہارا تذکرہ ہر وقت زبان زد ہے، اور تمہاری جائے قیام میرے دل میں ہے بتاؤ تم مجھ سے غائب ہوسکتے ہو؟ ایک نمازی کی نماز میں ایسی حالت ہو اور ہونی چاہیے تو حضورﷺ گویا نگاہوں کے سامنے ہیں؛ اگر چہ آپ کا جسم یہاں موجود نہیں؛ لیکن آپ کی محبت یہاں موجود ہے؛ لہٰذا موجود کو مخاطب بنانا زیادہ بہتر ہے، الفاظِ غیبت استعمال کرنے سے؛ لہٰذا السلام علیک أیہا النبيکی تعلیم دی گئی، اور متکلم بھی موجود ہوتا ہے ؛اس لیے وہ اپنی لیے بھی کہتا ہے: السلام علینا اور دوسرے بندے اگر چہ نگاہوں کے سامنے ہیں، دائیں بائیں ہیں، لیکن وہ دل میں نہیں ہیں؛اس لیے اُن کے لیے الفاظِ غیبت استعمال ہوئے اور علی عباد اللہ الصالحینکہا گیا،یہ ایک عاشقانہ فرق ہے، اس کو سمجھنے کے لیے، محبتِ حقیقی کے مفہوم کا سمجھنا ،نا گزیر ہے۔(خلاصہ بدائع الفوائد:۲؍۱۹۱) محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا ساتواں باب مضامینِ سلام ومتفرقاتِ سلام