اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیکن علامہ عینیؒ کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی نے آغاز ہی میں لا علمی کی وجہ سے ’’علیکم السلام‘‘ کہہ دیا تو اگر چہ ایسا کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اُسے جواب دے دینا چاہیے، اِس رائے کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے، او رعدمِ جواز کی رائے کو ’’قیل‘‘سے بیان کیا ہے۔(عمدۃ القاری: ۱۵؍۳۴۶)(۱) مسئلہ: اگر صورتِ مذکورہ میں کوئی واو کا اضافہ کرکے وعلیکم السلام کے ذریعہ سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اِس لفظ میں ابتداء ً، سلام بننے کی صلاحیت ہی نہیں؛ لہٰذا یہ سلام ہی نہیں ہے۔(رد المحتار:۹؍۵۹۶) اس کی مزید تفصیل ’’رموزِ سلام‘‘ کے تحت آئے گی ان شاء اللہ۔ سلام کے جواب میں علیک السلام یا علیکم السلام کہنا -- ایک علمی بحث ’’السلام علیکم‘‘کا مسنون جواب وعلیکم السلام یا وعلیک السلامہے؛ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے اور یہی لوگوں میں رائج ہے؛ لیکن فقہاء نے اِس موقع پر یہ بھی گفتگو کی ہے کہ اگر کسی نے جواب میں بغیر واو کے علیکم السلام کہہ دیا تو یہ جوابِ سلام ہوگا یا نہیں؟ یہ ایک علمی بحث ہے، شائقینِ علم وفن کے لیے سپرد قرطاس کی جارہی ہے۔ (۱) چناں چہ ترمذی کی روایت میں حضورﷺ کا بعد میںجواب دینا ثابت ہے۔(رقم الحدیث: ۲۷۲۱) اِس سلسلے میں دورائے ہیں: پہلی رائے یہ ہے کہ ’’علیکم السلام‘‘ بحذف الواو سلام کا جواب نہیں بن سکتا ،اور نہ ہی اس سے جوابِ سلام کا فریضہ ساقط ہوگا۔ اِس رائے کی بنیاد تین دلائل پر ہے(۱) اِس طرح جواب دینا مسنون جوابِ سلام کے خلاف ہے (۲)ایسی صورت میں یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ علیکم السلام کہنے والے نے سلام کا جواب دیا ہے یا خود ہی سلام کیا ہے؛ کیوں کہ اس صیغے میں سلام او رجواب ِسلام: دونوں کی گنجائش ہے: (۳) تیسری دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپﷺ نے ا رشاد فرمایا: إذا سلَّم علیکم أھل الکتاب، فقولوا: ’’وعلیکم‘‘ یعنی اہل کتاب تمہیں سلام کردیں تو جواب میں ’’وعلیکم‘‘ کہہ دیا کرو(۱) طرزِاستدلال یوں ہے کہ حضورﷺ نے جب اُن اہل کتاب کے سلام کے جواب میں ’’وعلیکم‘‘ (باثباتِ الواو) کہنے کا حکم دیا ہے جو کبھی السلام علیکمکے بجائے السام علیکم ( تم پر موت ہو) بھی کہہ دیا کرتے تھے تو مسلمان کے سلام کے جواب میں تو وعلیکم السلام کہنا بدرجہ اولیٰ لازم اور ضروری ہوگا۔ دوسری رائے اِس سلسلے میں یہ ہے کہ جیسے وعلیکم السلام (واو کے ساتھ)صحیح ہے، ویسے ہی علیکم السلام(بلا واو)بھی درست ہے، دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْْفِ إِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ إِذْ دَخَلُوا عَلَیْْہِ فَقَالُوا سَلَاماً قَالَ سَلَامٌ (الذاریات: ۳۴) قال سلام کا مطلب ہے سلامٌ علیکم،دیکھیے سلام کے جواب میں وَسَلام نہیں ہے؛ بلکہ صرف سلامٌ ہے، دوسری دلیل خلقِ آدم کا قصہ ہے، حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرشتوں کو سلام کیا تو فرشتوں نے کہا: السلام علیک ورحمۃ اللہ(۲) دیکھیے یہاں واؤ نہیں ہے، تیسری یہ ہے کہ قرآن میں ہے وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا(النساء: ۸۶) اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جواب دینے والا دو باتوں کا مُکلَّف ہے: یا تو جواب بالمثل دے یا اُس