اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ساتھ ضمناً ان پر درود وسلام بھیج دیا گیا تو جائز ہے، مثلا ً صلی اللہ علی محد وعلی آلہ وأصحابہ وسلَّم۔(مظاہر حق جدید:۱؍۷۴۰) صدیق اکبرؓ اور فاروقِ اعظمؓ پر بھی سلام پڑھیے علامہ سخاوی لکھتے ہیں: جب کوئی مسجد نبوی پہنچ جائے تو قبلہ کی جانب سے قبر شریف پر حاضر ہو اور بقدر چار ہاتھ فاصلہ سے کھڑا ہو اور نیچی نگاہ رکھتے ہوئے، نہایت خشوع وخضوع اور ادب واحترام کے ساتھ سلام پڑھے(یہ ایک طویل اور جامع سلام ہے، مذکورہ کتاب میں دیکھا جاسکتا ہے) اس کے بعد اپنے نفس کے لیے اورسارے مومنین اور مومنات کے لیے دعا کرے، اس کے بعد حضرات شیخین: حضرت ابو بکر، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر سلام پڑھے اور اُن کے لیے بھی دعا کرے اور اللہ سے اِس کی بھی دعا کرے کہ اللہ جل شانہ ان دونوں حضرات کو بھی اُن کی مساعی جمیلہ جو انہوں نے حضور اقدسﷺ کی مدد میں خرچ کی ہیں اور جو حضور ا قدسﷺ کے حق کی ادائیگی میں خرچ کی ہیں، ان پر بہتر سے بہتر جزائے خیر عطا فرمائے۔(القول البدیع:۱؍۲۱۴) علامہ نوویؒ لکھتے ہیں: حضورﷺ پر سلام پڑھنے کے بعد، جس نے سلام کہلوایا ہے، اس کا سلام پہنچائے پھر حضراتِ شیخینؓ کو سلام کرے، پھر دعا کرے۔ ثم یتأخر قدر ذراع إلی جہۃ یمینہ، فیسلم علی أبي بکر، ثم یتأخر ذراعاً آخر للسلام علی عمرؓ؛ ثم یرجع إلی موقفہ الأول قبالۃ وجہ رسول اللہﷺ؛ فیتوسل بہ في حق نفسہ ویتشفع بہ إلی ربہ سبحانہ وتعالیٰ ویدعو لنفسہ…(الاذکار:۲۳۴) مولف عرض گزار ہے: کہ علامہ سخاویؒ اور علامہ نوویؒ نے جو ادب بتایا ہے، دونوں میں ذرا فرق ہے، علامہ نوویؒ کے مطابق شیخینؓ پر سلام سے فراغت کے بعد اپنے لیے دعا کرے، اور علامہ سخاویؒ کی رائے کے مطابق، حضورﷺ پر سلام پڑھنے کے بعد دعا کرے، پھرحضرات شیخین ؓپر سلام پڑھے۔ جب تک مدینہ میں قیام ہو خوب سلام عرض کیجیے مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں: جب تک مدینہ منورہ میں قیام ہو کثرت سے روضۂ اقدس کے سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کیا کرے؛ خصوصاً پانچ نمازوں کے بعد (زبدہ) مسئلہ: اگر کسی وقت خاص مواجہہ شریف پر حاضری کا موقع نہ ملے تو روضۂ اقدس کے کسی طرف بھی کھڑے ہو کر یا مسجد نبوی میں کسی جگہ میں بھی سلام عرض کرسکتا ہے؛ اگر چہ اُس کی وہ فضیلت نہیں جو سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کرنے کی ہے۔ مسئلہ: عورتوں کو بھی روضۂ ا قدس کی زیارت اور مواجہہ شریف میں حاضر ہوکر سلام عرض کرنا چاہیے؛ البتہ اُن کے لیے بہتر ہے کہ رات کے وقت حاضر ہوں اور جب زیادہ ازدہام ہو تو کچھ فاصلہ ہی سے سلام عرض کردیں۔(جواہر الفقہ،۴؍۱۷۶)