اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر ذرا غور کریں تو یہ (السلام علیکم)اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کا حدوحساب ہی نہیں، اب اِس سے زیادہ ہماری بد نصیبی کیا ہوگی کہ اس اعلی ترین کلمہ کو چھوڑ کر ہم اپنے بچوں کو ’’گڈ مارننگ‘‘ ’’گڈ ایو ننگ‘‘ سکھائیں اور دوسری قوموں کی نقالی کریں، اِس سے زیادہ ناقدری اور ناشکری اور محرومی کیا ہوگی؟(اصلاحی خطبات:۶؍۱۶۰) السلام علیکم کے بجائے تسلیم وغیرہ سوال: (۲۰۷۵) (الف) بعض حضرات خط لکھتے وقت ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘کے بجائے ’’تسلیم، آداب، نیاز، سلام مسنون‘‘ اور اس جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ (ب) غیر مسلم بھائیوں سے خط وکتابت اور ملاقات کے وقت کیا لفظ استعمال کرنا چاہیے؟ اگرکوئی ہندو بھائی ’’السلام علیکم‘‘کہے یا لکھے تو جواب میں کیا کہنا یا لکھنا چاہیے؟ جواب: (الف) اسلام سے پہلے عربوں میں ملاقات کے وقت کچھ او رکلمات کہے جاتے تھے، بعض کلمات جن کا حدیث میں ذکر آیا ہے، مشرکانہ بھی نہیں تھے؛ لیکن اِس کے باوجود رسول اللہﷺ نے ایک مستقل کلمہ’’السلام علیکم‘‘ مقررفرمایا جو بہت ہی بامعنی دعاؤں پر مشتمل ہے، اِس سے صاف ظاہر ہے کہ اصل اسلامی طریقہ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ لکھنا ہے، دوسرے الفاظ لکھے جائیں تو اُس سے یہ سنت ادا نہیں ہوگی۔ (ب) غیر مسلموں کو آداب، یا ایسے کلماتِ احترام کہے جاسکتے ہیں جن میں مشرکانہ معنی نہ پائے جائیں، رسول اللہ ﷺنے غیر مسلموں کو خطوط لکھتے ہوئے ’’السلام علی من اتبع الہدی‘‘ کی تاویل اختیار کی ہے، یہی کلمات لکھنا زیادہ مناسب ہے، اگر اس سے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو؛اگر کوئی غیر مسلم خط میں ’’السلام علیکم‘‘لکھے تو جواب میں ’’وعلیکم‘‘ لکھنے کی گنجائش ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، بہتر ہے کہ ایسی صورت میں ’’سلام‘‘ کے لفظ سے گناہ اور کفرسے سلامتی کے معنی مراد لیں۔(کتاب الفتاوی:۶؍۱۲۳) اللہ حافظ یا خدا حافظ کہنا؟ سوال: (۷۶ ۲۰) کسی شخص کو رخصت کرتے وقت ’’اللہ حافظ‘‘ کہنا بہتر ہے یا ’’خدا حافظ‘‘ کہنا؟ بعض لوگ خدا حافظ کہنے سے منع کرتے ہیں؟ جواب: خدا حافظ بھی کہنا جائز ہے، اور اللہ حافظ کہنا بھی ؛ کیوں کہ ’’خدا‘‘ کالفظ اللہ تعالیٰ کے لیے معروف ہوچکا ہے اور اِس کے معنی میں کوئی ایسی بات نہیں جو اللہ تعالیٰ کی جلالتِ شان کے خلاف ہو، البتہ ’’اللہ‘‘ کا لفظ ’’خدا‘‘ سے زیادہ بہتر ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا عَلَم ذاتی اور اصل نام ہے، اور بالعموم یہی نام قرآن حدیث میں وارد ہوا ہے؛ تاہم مسنون طریقہ یہ ہے کہ رخصت کرتے وقت رسو ل اللہﷺ جو دعا پڑھا کرتے تھے وہی دعا پڑھی جائے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے: کہ جب آپﷺ کسی کو رخصت فرماتے تو اس کا ہاتھ تھام لیتے اور یہ دعا پڑھتے۔ استودع اللہ دینک وأما نتک وآخر عملک۔ اور میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ