اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(معارف القرآن : ۲ ؍ ۵۰۱) سلام ہر حال میں مفید ہے الغرض ملاقات کے وقت کے لیے ’’السلام علیکم‘‘ سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہوسکتا؛اگر ملنے والے پہلے سے باہم متعارف اور شناسا ہیں اور ان میں محبت واخوت یا قرابت کے قسم کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمہ میں اس تعلق اور اس کی بنا پر محبت ومسرت اور اکرام وخیر اندیشی کا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف اور تعلق نہیں ہے تو یہ کلمہ ہی تعلق واعتماد اور خیر سگالی کا وسیلہ بنتا ہے، اور اس کے ذریعہ ہر ایک دوسرے کو ، گویا اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیر اندیش اور دعا گو ہوں اور میرے اورتمہارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے۔(معارف الحدیث : ۶؍ ۱۵۰) سلام کی قسمیں امام جصاص ؒنے فرمایا: کہ سلام کی دو قسمیں ہیں، ایک سلام تحیہ جو مسلمان باہم ایک دوسرے کو کرتے ہیں، دوسرا سلام مُسا لمت ومتارکت یعنی اپنے حریف کو یہ کہہ دینا کہ ہم تمہاری لغو بات کا کوئی انتقام تم سے نہیں لیتے بہ الفاظ دیگر کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے جو سلام کیا جائے۔ (احکام القرآن :۵ ؍ ۲۱۶) جیسے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کا اپنے والد سے کہنا سلام علیک(مریم: ۴۷) ابن حجرؒ لکھتے ہیں: قاضی عیاضؒ کا کہنا ہے: بأن القصد بذلک، المتارکۃ والمباعدۃ ولیس القصد فیہا، التحیۃ۔(فتح الباری :۱۳ ؍۴۸) بخاری کی شرح ارشاد الساری میں ہے: فمعنی قول إبراہیم لأبیہ سلام علیک أي أمان فلا ینالک مني مکروہ ولا أذی وذلک لحرمۃ الأبوۃ۔( ۱۳ ؍ ۲۵۹) یعنی حضرت ابراہیم ؑنے اپنے والد کو جو سلام کیا تھا وہ سلام تحیہ نہیں تھا؛ بلکہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، آپ مامون رہیں اور ایسا اس وجہ سے کہا کہ وہ حضرت ابراہیم کے باپ تھے۔ سلام متارکت کی دوسری مثال وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَاماً(الفرقان: ۶۳)سورہ فرقان کی یہ آیت ہے، ان آیات میں اللہ کے مخصوص ومقبول بندوں کی تیرہ صفات وعلامات کاتذکرہ ہے، ان میں سے تیسری صفت وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَا ماًہے،اس سے پہلے والی آیت میں ان کی صفت تواضع کا بیان ہے، جس کاتعلق ان کے اپنے اعمال سے ہے اور آیت میں دوسروں کے ساتھ ان کے طرز عمل کو بتایا گیا ہے کہ جب ان سے جہالت والے لوگ (جہالت کی) بات کرتے ہیں تو وہ رفع شر کی بات کہتے ہیں اور ان سے سلام کہتے ہیں۔ اس آیت میں سلام سے ،سلام تحیہ نہیں؛ بلکہ سلام متارکت مراد ہے؛ چناں چہ علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں: قال النحاس: لیس ’’سلما‘‘ من التسلیم؛ إنما ہو من التسلّم، تقول العرب: سلاما، أي تسلُّما منک أي براء ۃ منک۔ (القرطبی :۳؍ ۲۹۴) یعنی سلام سے مراد یہاں ’’السلام علیکم‘‘ نہیں ہے؛ بلکہ سلامتی کی بات ہے؛ کیوں