اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
احادیثِ سلام ---- فضائل، مسائل اور تشریح مع فوائد ۱-حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سرکار دوعالمﷺ سے دریافت کیا کہ: اہلِ اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر شناسا وناشناسا کو سلام کرنا۔(بخاری، رقم الحدیث: ۱۲، باب اطعام الطعام) فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق، جان پہچان اور شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے، جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کیے ہیں؛ لیکن آج اس سلسلے میں کوتاہی اور غفلت عام ہے، عموماً لوگ چہرہ اور شخصیت دیکھ کر سلام کرتے ہیں یا اسے سلام کرتے ہیں، جس سے نفع وضرر کا تعلق ہوتا ہے، اصلاح کی ضرورت ہے، شرح ابن بطال میں ہے: غیر شناسا کو سلام کرنا، انسیت ومحبت کا پیش خیمہ ہے؛ جب کہ غیر شناسا کو سلام نہ کرنا نفرت وعداوت کا مقدمہ ہے۔(۹؍۱۴) مطلب اور غرض کا سلام آج کل ہمارے اندر ،سلام کرنے میں بہت کمی پائی جاتی ہے، ہم صرف جان پہچان والوں کو سلام کرتے ہیں، اور جان پہچان والوں میں بھی، ہمارا ان لوگوں کو سلام کرنے کا معمول ہے، جن سے ہماری دینی یا دنیاوی کوئی غرض وابستہ ہے، اگر کوئی جان پہچان والا ہے؛ لیکن اس سے ہمارا کوئی مطلب اور کوئی غرض نہیں یا خدانخواستہ اس سے ہماری کوئی ناراضگی ہے تو اس کو بھی سلام نہیں کرتے، یہ تو مطلب والا سلام ہوا…ہمارے دین میں ایسا کوئی حکم نہیں، ہمارے دین میں یہ حکم ہے کہ چاہے تمہاری کسی سے کوئی غرض وابستہ ہو یا نہ ہو، چاہے تمہارے اور اس کے درمیان جان پہچان ہو یا نہ ہو، آپس میں دوستی ہو یا نہ ہو، رشتہ داری ہو یا نہ ہو، پڑوس ہو یا نہ ہو، برادری کا تعلق ہو یا نہ ہو اور چاہے وہ امیر ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ؛ بس مسلمان ہونا چاہیے، اسے سلام کیا جائے۔(اصلاحی بیانات: ۵؍۴۰) مفتی سعید احمد صاحب کے افادات میں ہے: