اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ جو کچھ ہمیں ملایا ملے گا سب حضورﷺ کے صدقہ میں ہے، علاوہ ازیں بندے کو اخیر میں اپنے لیے کچھ مانگنا ہے اور مانگنے کا ادب ہے إذا دعا أحدکم فَلیَبْدأ بحمد اللّٰہ والثناء علیہ ثم لیصل علی النبيﷺ ثم لیدع(ترمذی، رقم: ۳۴۷۷ فی الدعوات) عن عمر بن الخطابؓ قال: إن الدعاء موقوف بین السماء والأرض لا یصعد منہ شيء حتی تصلي علی نبیکﷺ۔ (ترمذی:۴۸۶، فی الصلاۃ) لہٰذا اُسے اِن دو باتوں کی وجہ سے حکم ہوا کہ درود پڑھے، اب درود پڑھ چکا تو حکم ہوا کہ اپنے لیے دعا کرلو، ذرا سوچیے تشہد از اول تا آخر کیسے ایک دوسرے سے مربوط ہے، اور یہ ربط اپنے اندر کتنا حُسن رکھتا ہے، کیا کوئی بندہ ایسا کرسکتا ہے؟ یہ تو کوئی ایسی ذات ہی کرسکتی ہے جس کی یہ صفت ہو لا مثال لہ ولا مثیل لہ۔ (خلاصہ بدائع الفوائد مع اضافہ:۲؍۱۹۰) اِس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کیوں نماز کے تشہد میںپہلے سلام ہے پھر درود ہے، فللہ الحمد۔ بارگاہِ خداوندی میں سلام پیش کرنے کا اسلوب التحیات للہ یعنی جملہ انواع تعظیم وتسلیم اللہ تعالیٰ شانہ کے لیے ہیں، ابو سلیمان خطابیؒ مشہور شارح حدیث فرماتے ہیں کہ ہر زمانہ میں ہر بادشاہ کے لیے سلام وآداب کے طریقے الگ الگ رہے ہیں؛ لیکن حق تعالیٰ کی شایانِ شان اُن میں سے کوئی سا بھی نہیں تھا؛ اِس لیے حضورﷺ نے اُن تمام انواع سلام کی طرف اشارہ(۱) کرتے ہوئے، ان سب کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص فرمایا یعنی جملہ انواعِ تعظیم وتسلیم صرف اللہ کے لیے ہیں۔(الدر المنضود:۲؍۳۵۸)إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْماً (الأحزاب: ۵۶) صلاۃ وسلام میں، فعل ’’سلموا‘‘کے ساتھ’’تسلیما‘‘ کے اضافہ کی حکمت اس آیت میں صلواکے ساتھ کوئی مصدر نہیں ہے؛ جب کہ ’’سلموا‘‘ کے ساتھ (۱) اور اشارہ کرنے والے جناب رسول اللہﷺ ہیں، آپ سے بڑھ کر کوئی فصیح وبلیغ نہ ہوا نہ ہے، آپ ہی نے یہ تعظیم وتکریم اور بارگاہ رب العالمین میں سلام پیش کرنے کا یہ اسلوب اختیار فرمایا ہے۔ ’’تسلیما‘‘ مصدر کا اضافہ ہے، ایساکیوں؟ مطلوب تو درود وسلام دونوں ہیں؟ ابن قیمؒ نے اس کی حکمت بیان کی ہے، خلاصہ درج ذیل ہے: عربی داں حضرات جانتے ہیں کہ فعل کے بعد مصدر کا اضافہ فعل کی تاکید کے لیے ہوتا ہے، اِس آیت میں تاکید، صلاۃ وسلام دونوں کی ہے؛ البتہ جہت ِتاکید الگ الگ ہے،آیت کا آغاز لفظ إنَّ کے ساتھ ہے جونہایت تاکید پر دلالت کرتا ہے، اِس کے بعد مضارع کا صیغہ ہے جو استمرار ودوام پر دلالت کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ اور اُس کے فرشتے ہمیشہ درود بھیجتے رہتے ہیں، قرآن کے اولین مخاطب اہلِ عرب تھے جو اہلِ زبان تھے، اُنہوں نے اس بلیغ انداز سے سمجھ لیا کہ نبی کریمﷺ کا مرتبہ اللہ کے نزدیک اور فرشتوں کے نزدیک کیساہے؟ اب اِس کے بعد جب انہیں درود پڑھنے کا حکم