اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گئی ہے، اور سلام کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی ہے، اِس کی کیا حکمت ہے؟ جواب اور حکمت یہ ہے کہ سلام تو خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے، اِس صفتی نام کی اضافت ذاتی نام کی طرف کرنا بے معنی ہوگا، سلام اللہ کہنا درست نہیں جیسے کوئی عالم دین ہے، اُس کے علم کی اضافت اُس کے نام کی طرف کرنا درست نہیں، مثلا: کہا جائے : عالم زیدٍ اور خود زید ہی عالم ہے، اور جہاں تک بات رحمت وبرکت کی ہے تو اس کی ا ضافت مقامِ دعا میں اللہ کی طرف ہی ہوسکتی ہے، مقامِ دعا میں رحمت وبرکت کی نسبت اللہ کی طرف نہیں ہوگی تو کون ذات ہے؛ بلکہ کوئی ذات نہیں ہے جو رحمت وبرکت بندوں پر اتار سکے، اِس حکمت کے پیشِ نظر السلام بلا اضافت ہے اور رحمت وبرکت اضافت کے ساتھ ہے۔ فللہ الحمد۔ إن السلام لما کان اسما من أ سماء اللّٰہ تعالی استغنی بذکرہ مطلقا عن الإضافۃ إلی المسمی وأما الرحمۃ والبرکۃ فلو لم یضافا إلی اللّٰہ لم یعلم رحمۃ من ولا برکۃ من تطلب۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۸۱) ’’سلام‘‘ اور’’رحمۃ‘‘ کو مفرد اور ’’برکات‘‘ کو جمع لانے کی حکمت السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ میں سلام او ررحمت کو مفرداستعمال کیا گیا ہے؛ جب کہ برکات کو جمع، اِس کی کیاحکمت ہے؟ اصل حکمت تو حکیم وخبیر خداوند قدوس کو ہی معلوم ہے ؛تاہم ابن قیمؒ نے اِس کی حکمت اپنے انداز میں یہ بتائی ہے کہ لفظ سلام یہاں مفرد ہی استعمال ہوسکتا ہے؛ کیوںکہ سلام یا تو مصدرِ محض ہے یا اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے؛ اگر مصدر محض مانیں تو مصدر شيء واحد کے درجے میں ہوتا ہے، مصدر کی جمع نہیں آتی ہے، اور اگر سلام اللہ کا نام ہو تو جمع لانا محال ہوگا، خدا جیسے اپنی ذات میں تنہا ہے، صفات میں بھی تنہا ہے؛ الغرض دونوں تقدیر پر سلام کی جمع نہیں لا سکتے۔ إن السلام إما مصدر محض فہو شيء واحد فلا معنی لجمعہ وإما اسم من أسماء اللہ فیستحیل أیضا جمعہ فعلی التقدیرین لا سبیل إلی جمعہ۔ اور رحمت کو مفرد اس لیے لایا گیا ہے کہ یہ مصدر ہے اور مصدر کی جمع نہیں آتی ہے اور اِس کے اخیر میں گول ۃ ایسے ہی ہے جیسے محبۃ، خلۃ وغیرہ میں ہے، یعنی گول’’ ۃ‘‘ تحدید اور وحدت کے لیے نہیں ہے؛ لہٰذا جیسے محبۃ کی جمع محبات یا خلۃ کی جمع خلات نہیں آتی ہے ویسے ہی رحمۃ کی جمع رحمات نہیں آتی ۔ دوسری بات یہ کہ بعض الفاظ ایسے ہیں کہ اگر اُن کی جمع استعمال کریں تو مفہوم اور معانی ناقص رہتے ہیں، بہ الفاظ دیگر جمع تحدید اور تعداد پر دلالت کرتی ہے، جمع کے افراد ہوں گے جن کی کوئی نہ کوئی حد ہوگی، بر خلاف مفرد کے کہ اگر وہ مفرد استعمال ہوں توبغیر تحدید کے مسمی اور ذات پر دلالت کرتے ہیں، ایسی جگہوںمیں مفرد کا استعمال، معنی ومفہوم کے اعتبار سے جمع سے زیادہ بہتر اور کامل ہوتا ہے، رحمت انہیں الفاظ میں سے ہے، ابن قیمؒ لکھتے ہیں: یہ ایک عجیب بات ہے، وہذا بدیع جدا أن یکون مدلول المفرد أکثر من مدلول الجمع، یعنی مفرد کی اپنے معانی پر دلالت، جمع کی دلالت سے زیادہ ہے۔ مثال: (۱) قُلْ فَلِلّہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ( الانعام:۱۴۹) أعم ومن أتم معنی من أن یقال فللہ الحجج البوالغ (۲) وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْہَا۔(ابراہیم: ۳۴) أتم معنی أن یقال وإن تعدوا نعم اللہ۔ (۳) رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ