اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اِس دوسری روایت میںدو باتوں کا اضافہ ہے کہ : مصافحہ کے بعد دونوں اللہ کی حمد وثنا کریں اور استغفار کریں یعنی مغفرت کی دعا مانگیں؛لہٰذا پہلی روایت میں اگر چہ استغفار کا تذکرہ نہیں ہے؛ مگر وہاں بھی اس قید کو بڑھا یا جائے گا؛ کیوں کہ حادثہ واحدۃ میں مطلق کو مقید پر محمول کیاجاتا ہے۔ اور حدیث میں پہلے تعریف کرنے کاتذکرہ ہے اور اُس کے بعد استغفار کا؛ جس سے معلوم ہوتا ہے پہلے تعریف کرنی چاہیے، پھر استغفار کرنا چاہیے؛ لیکن معاملہ اِس کے برعکس ہے،حکم ہے پہلے استغفار کریں پھر اللہ کی حمدوثنا کریں ،سوال یہ ہے کہ حدیث میں پہلے حمد کا تذکرہ کیوں کیا گیا؟اِس کی وجہ مفتی سعید احمد صاحب لکھتے ہیں: اور حدیث میں واو عاطفہ مطلق جمع کے لیے ہے، اورحمد کا موقع، مزاج پرسی کا وقت ہے، لوگ عام طور پر اس وقت حمد کرنا بھول جاتے ہیں؛اِس لیے اہمیت ظاہر کرنے کے لیے اس کو مقدم کیا گیا ہے۔ (تحفۃ الالمعی:۶؍۵۰۵) فائدہ: حمد کی صورت یہ ہے کہ خیریت وحال پوچھنے پر الحمد للہ کہا جائے اور مغفرت کی صورت یہ ہے کہ یغفر اللہ لنا ولکم کہاجائے۔(الدعاء المسنون:۴۴۱) مصافحہ کرتے وقت’’ایک اہم نیت‘‘ ابھی آپ نے روایت پڑھی کہ مصافحہ کرنے سے گناہوں سے مغفرت ہوتی ہے؛ لہٰذا بوقتِ مصافحہ یہ نیت کرلینی چاہیے کہ اللہ اِس مصافحہ کی برکت سے ہمارے گناہوں کو بخش دیں گے، اِس کے ساتھ ساتھ ایک نیت اور ہے جو اہم ہے اور تکبر وبڑائی کاعلاج ہے۔ ڈاکٹر عبد الحی صاحب قدس سرہ فرمایا کرتے تھے: کہ بھائی جب بہت سارے لوگ مجھ سے مصافحہ کرنے کے لیے آتے ہیں تو میں بھی بہت خوش ہوتاہوں؛اِس لیے خوش ہوتا ہوں کہ یہ سب اللہ کے نیک بندے ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون بندہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول بندہ ہے، جب اِس مقبول بندے کا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھو جائیگا تو شاید اُس کی برکت سے اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی نوازش فرمادیں -یہی باتیں بزرگوں سے سیکھنے کی ہیں- اس لیے جب بہت سے لوگ کسی سے مصافحہ کے لیے آئیں تو اُس وقت آدمی کا دماغ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ جب اتنی ساری مخلوق مجھ سے مصافحہ کررہی اور میری مُعتَقِد ہورہی ہے، واقعۃً اب میں بھی بزرگ بن گیا ہوں؛ لیکن جب مصافحہ کرتے وقت یہ نیت کرلی کہ شاید اِن کی برکت سے اللہ تعالیٰ مجھے نواز دیں، میری بخشش فرمادیں تو اب سارا نقطہ تبدیل ہوگیا اور اب مصافحہ کرنے کے نتیجے میں تکبر اور اپنی بڑائی پیدا ہونے کے بجائے تواضع اور عاجزی اورشکستگی ،انکساری پیدا ہوگی؛ لہٰذا مصافحہ کرتے وقت یہ نیت کرلیا کرو۔ (اصلاحی خطبات:۶؍۱۸۰) سلام کے مقاصد کی تکمیل سلام کا مقصد، محبت ومسرت اور جذبۂ اکرام واحترام کا اظہار ہے، اِس اظہار کا ذریعہ سلام کے علاوہ؛ بلکہ اُس سے بالاتر مصافحہ بھی ہے، جو عموماً سلام کے ساتھ اور اُس کے بعد ہوتا ہے اور اُ س سے سلام کے اِن مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے؛ چناں چہ حدیث میں: