اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الجنس الواحد؛ لأن في ہذہ الروایۃ تصریحاً بالیدین ومع ذلک قال: فأخر ج کفالہ؛ فلابد أن ذکر الکف ہہنا للجنس ویؤیدہ أیضا تقبیل الکفین جمیعا۔(اوجز: ۱۶؍۱۳۱) مشکوٰۃ:۲؍۳۵۴ حضرت شیخ ؒنے اِس کے بعدچھ سات روایتیں ایسی ذکر کی ہیں جن میں ’’أیدي‘‘جمع کے صیغے کے ساتھ مروی ہے، اور اپنی تحقیق پیش کی ہے کہ ولم أر بعدُ في روایۃ ولا أثر تصریحا بالید الواحدۃ ولو سلّم علی الفرض، فقد أفاد شیخ مشائخنا الگنگوہي - قدس سرہ - في ’’الکوکب الدري‘‘: قولہ: والأخذ بالید، اللام فیہ للجنس فلا تثبت الوحدۃ۔ (اوجز: ۱۶؍۱۳۲) یعنی ایک ہاتھ سے مصافحہ کی روایت یا اثر ابھی تک میری نظر سے نہیں گذرے ہیں اور ا گر کہیں ایسی روایت مل جائے توبقول حضرت گنگوہیؒ کے وہاں ید سے جنس ید مراد ہے۔ (۷) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی حدیث ِرویا میں ہے کہ حضورﷺ نے تبسم فرماتے ہوئے میری طرف اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے، میں قریب ہوا یہاں تک کہ میرے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے مل گئے، فأخذﷺ یدی بین یدیہ فصافح توآپﷺ نے میرا ہاتھ اپنے دونوں مبارک ہاتھوں کے درمیان پکڑا اور مصافحہ فرمایا۔ (الدر الثمین: ۱۵۲) (۸) پیچھے جو روایتیں ذکر کی گئیں ہیں مسلمان جب مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ جھڑجاتے ہیں؛ اگر اس کامطلب یہ ہو کہ ہاتھوں کے گناہ جھڑتے ہیں تو انسان دونوں ہاتھوں سے گناہ کرتا ہے تو دونو ں کے گناہ جھڑنے چاہئیں اور یہ اُس وقت ہوگا جب مصافحہ دونوں ہاتھوں سے ہو۔ (تجلیات صفدر:۱؍۱۴۶) کیا مصافحہ ایک ہاتھ سے بھی ہوسکتا ہے؟ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ صراحۃ ً کسی روایت میں یہ نہیں آیا ہے کہ حضورﷺ نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کیا، اس کے بر خلاف دوہاتھوں سے مصافحہ کرنے کی روایتیں موجود ہیں جیسا کہ اوپر ذکر کی گئیں،ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حدیث میں مفرد کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور تثنیہ کا لفظ بھی آیا ہے؛یہی وجہ ہے کہ علماء دیوبند جن کا وصفِ امتیازی ’’اعتدال‘‘ ہے، انہوں نے دونوں باتوں کو تسلیم کیاہے؛ چناں چہ علماء دیوبند کے سرخیل حضرت گنگوہیؒ لکھتے ہیں: والحق فیہ أن مصافحتہﷺ ثابتۃ بالید والیدین، إلا أن المصافحۃ بید واحدۃ لما کانت شعار أہل الإفرنج وجب ترکہ لذلک۔(الکوکب الدری:۳؍۳۹۲، اوجز: ۱۶؍۱۳۲) یعنی حق بات اِس سلسلے میں یہ ہے کہ حضورﷺ کا ایک ہاتھ سے بھی مصافحہ کرنا ثابت ہے اور دو ہاتھوں سے بھی؛ لیکن اب ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا انگریزوں کا طریقہ بن چکا ہے؛ اِس لیے ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا واجب الترک ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ لکھتے ہیں: فبید واحدۃ تجزئ وبالیدین أکمل، یعنی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا کافی ہے؛ لیکن دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنا اکمل طریقہ ہے ۔ فیض الباری میں حضرت کے الفاظ ہیں: اعلم أن کمال السنۃ في المصافحۃ أن تکون بالیدین ویتأدی أصل السنۃ من ید واحدۃ أیضا۔(العرف الشذی علی الترمذی:۲؍۱۰۱، فیض الباری:۶؍۲۰۴) جن روایتوں میں ایک ہاتھ کا تذکرہ ہے، علماء دیوبند کے پاس اُس کی مناسب