اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلام کا جواب دینا واجب ہے، بلاو جہ جواب نہ دینا، نفرت وعداوت کا سبب ہوجاتا ہے؛ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے سلام کیا گیا ہے، اُس پر استغراقی کیفیت طاری ہے، کوئی فکر دامن گیر ہے یا ایسے حالات ہیں، جن حالات میں انسان آس پاس کی چیزوں سے بے خبر ہوجاتا ہے، ایسے شخص کو کسی نے سلام کیا اور اُس نے جواب نہیںدیا تو اس سے شکایت پیدا ہوجانا ایک فطری کمزوری کانتیجہ ہے؛ لیکن اول مرحلہ میں اُس سے بد گمان نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ مثبت اسباب تلاش کرنے چاہئیں، بد گمانی سے حتی الامکان پر ہیز کرنا چاہیے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ کے پاس سے گذرے اور حسبِ عادت سلام کیا، حضرت عثمانؓ نے کوئی جواب نہیں دیا، حضرت عمرؓ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس یہ شکایت خیریت پوچھنے سے متعلق مزید روایتیں: (۱)عن خثیمۃ قال: سألت عائشۃ: کیف أصبحت؟ قالت بنعمۃ۔ (۲)عن مغیرۃ قال: سمعت إبراہیم وسلَّم علیہ فقال: وعلیکم، فقال: کیف أنت؟ قال بنعمۃ اللہ۔ (۳) عن عطاء بن السائب أن أبا عبد الرحمان السلمي کان إذا قیل کیف أنت؟ قال: بخیر نحمد اللہ،تفصیل کے لیے دیکھیے :المصنف۶؍۱۴۷ ،باب فی الرجل یقال لہ: کیف أصبحت۔ لے کر آئے کہ حضرت عثمانؓ نے اُن کو سلام کا جواب نہیں دیا، دونوں حضرات اُسی وقت حضرت عثمانؓ کے پاس وجہ دریافت کرنے کے لیے تشریف لائے، حضرت عثمان ؓنے عذر بیان کیا کہ حضرت عمرؓ کا سلام تو دور کی بات،اُن کے گذرنے کی آہٹ بھی مجھے محسوس نہ ہوسکی؛ کیوں کہ اس وقت میرے اوپر گہری فکر سوار تھی، میں اُس وقت یہ سوچ رہا تھا کہ امت کی نجات کس عمل میں ہے؟ اور حضورﷺ سے پوچھنا بھول گیا؛حالاں کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، حضرت صدیقؓ نے فرمایا کہ میں نے پوچھا تھا تو آں جناب نے فرمایا تھا کہ نجات کے لیے وہی کلمات ہیں جو میں نے ابو طالب پر پیش کیے تھے یعنی لا الہ الا اللہ جو ان کو پڑھ لے اور عمل کرلے تویہ اس کے لیے سرمایۂ نجات ہے۔ (مسند ابی یعلی الموصلی، رقم:۱۳۳) نیک لوگوں کی زیارت اور دعا وسلام اللہ کے جو نیک بندے ہوتے ہیں اُن کی زیارت، اُن سے ملاقات، ان کی صحبت میں کچھ دیربیٹھنا، اُن سے دعائیں لینا اوراُن کی باتوں کو سننا یقینا کار ِثواب ہے ،دلوں کی دنیا بدلنے میں بزرگوں کی زیارت اپنا ایک الگ مخصوص مقام رکھتی ہے، رویۃ الصالحین لہا أثر عظیم۔ کونوا مع الصادقین۔ اس لیے بزرگانِ دین اور صادقین وصالحین کی زیارت سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اُن سے دعا وسلام کا سلسلہ قائم رکھنا چاہیے، اُن سے مصافحہ کرنا چاہیے، احادیث میں بھی اِس کا حکم آیا ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مریض کی عیادت کی،یا اپنے بھائی