اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی ’’السلام علی اللہ‘‘اللہ پر سلام ہو مت کہو؛ کیوں کہ اللہ خود ’’السلام ‘‘ہے۔ (بخاری: ۶۲۳۰، کتاب الاستئذان) ممانعت کی وجہ: سلام ایک دعا ہے، سلا م کرنے والا جسے سلام کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اُس کے لیے سلامتی کی دعا کرتا ہے اور اگر السلام علی اللہکہا جائے تو لازم آئے گا کہ اللہ کے لیے سلامتی کی دعا کی جارہی ہے اور یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کی جاتی ہے، اللہ کے لیے درخواست نہیںکی جاتی، اللہ سے دعا کی جاتی ہے، اللہ کے لیے دعا نہیں کی جاتی، واللہ تعالیٰ ہو المطلوب منہ لا المطلوب لہ وہو المدعو لا المدعو لہ۔ لہٰذا السلام علی اللہمحال ہے؛بلکہ ا للہ تعالیٰ اپنے بندوں کو سلامتی نصیب فرماتے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے: وسلام علی المرسلین(۱) سلام علی إبراہیم (۲) وغیرہ ، قرآن میں ہے: تحیتہم یوم یلقونہ سلام(۳) یعنی اہلِ جنت جس دن اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملیں گے اُن کا تحیہ سلام ہو گا، یعنی اللہ تعالیٰ انہیں سلام کریں گے، یعنی یہ سلام فرشتوں کے ذریعہ نہیں ہوگا؛ بلکہ خدا تعالیٰ اہلِ جنت کو سلامتی کی دعا دیں گے، اور یہاں یہ معنی مراد لینا محال ہے کہ یہ سلام بندوں کی طرف سے اللہ کو ہوگا؛ کیوں کہ جب انہیں دنیا میں السلام علی اللہ کہنے سے منع کردیا گیا تو آخرت میں انہیں یہ بات بخوبی یاد رہے گی کہ اللہ کو سلام کرنے سے حضور نے منع فرمایا ہے۔(خلاصہ بدائع الفوائد:۲؍۱۴۱) ولما کان السلام من أسماء اللہ لم یجز أن یقال: السلام علی اللہ، وجاز أن یقال: السلام علیکم؛ لأن معناہ اللہ علیکم۔ (شرح ابن بطال:۹؍۹) إذا خاطبہم الجاہلوں قالوا سلامامیں سلاماً کے منصوب ہونے کی وجہ چوں کہ عباد الرحمن کی مدح مقصود ہے؛ اسی لیے سلاماً کو منصوب ذکر کیا گیا ہے جو مصدر محذوف کی صفت ہے، یعنی قالوا قولا سلاماً أی سدادا وصوابا وسلیما من الفحش اگر سلاماً یہاں مرفوع ذکر کیا جاتا تو مذکورہ مدح حاصل نہ ہوتی؛ بلکہ مطلب یہ ہوجاتا کہ جہالت والے لوگ جب اُن سے مخاطب ہوتے ہیں تو یہ لوگ السلام علیکم کہتے ہیں؛حالاں کہ آیت کا (۱) الصافات:۱۸۱ ۔ (۲) الصافات:۱۰۹۔ (۳) الاحزاب: ۴۴۔ یہ مقصد نہیں ہے اور نہ ہی اِس صورت میں اُن کی تعریف ہوگی، تعریف اُسی صورت میں ہوگی جب کہ جاہلین نے غلط بات کہی اور انہوں نے اچھی بات کہی۔ فہو من باب دفع السیئۃ بالتي ہو أحسن۔(بدائع الفوائد:۲؍۱۵۹) نماز میں پہلے سلام پھر درود --- اس ترتیب کی حکمت قرآ ن میں درود کا تذکرہ پہلے اور سلام کا تذکرہ بعد میں ہے؛ لیکن نماز میں ترتیب اس کے برعکس ہے، تشہد میں پہلے التحیات کے اندر حضورﷺ پرسلام ہے، اُس کے بعد درود پڑھنے کا حکم ہے، ایسا کیوں؟ حالاں کہ نبی کریمﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی عبادات میں قرآن نے جو ترتیب رکھی ہے، آپ اُسی ترتیب کو اختیار کرتے تھے؛ دیکھئے آپ نے سعی کا آغاز صفا سے فرمایا اور کہا: ہم وہیں سے آغاز کریں گے جہاں سے اللہ نے کیا ہے: اشارہ ہے إن الصفا والمروۃ من شعائر اللہ(۱) کی جانب، دیکھیے آپ