اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں وہ پڑھیں، اب اس سلسلے کی چند روایات پڑھیے۔ (۱) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے: کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جوکوئی بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس کردیتے ہیں؛ یہاں تک کہ میں اُس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں۔(ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۰۴۱، باب زیارۃ القبور) تشریح: سنن ابوداؤد کے مصنفؒ نے یہ روایت باب زیارۃ القبور کے تحت ذکر کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہاں حضورﷺ پر سلام سے مراد زیارتِ روضۂ اقدس کے وقت سلام کرنا ہے؛ چناں چہ بذل کے حاشیہ میں مسند احمد کے حوالے سے یہ حدیث یوں ہے ’’ما من أحد یسلم علی عند قبري‘‘ (۱) اس میں عند قبری کی قید ہے،معلوم ہوا کہ جو خوش نصیب بندہ، روضۂ اقدس پر حضورﷺ کو سلام کرتا ہے، حضور ﷺاُس کے سلام کا جواب وعلیک السلام کے ذریعہ دیتے ہیں، گویاایک اعتبار سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا، اگر یہ نعمت ساری دنیا؛ بلکہ اُس دنیا جیسی اور چار پانچ دنیا خرچ کر کے بھی حاصل ہو تو ایک امتی کے حق میں ار زاں اور سستا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کا مشاہدہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالعۃ میں اس حدیث کے تحت گفتگو کی ہے، خلاصہ درج ذیل ہے: روح پاک جو مشاہدۂ حق میں مشغول ہے اور جس کا کسی طرف التفات باقی نہیں رہا، باذن الٰہی وہ سلام پیش کرنے والے کی طرف مُلتَفِت ہوتی ہے اور جواب دیتی ہے یعنی روح پاک سے سلام کرنے والے کو فیض پہنچتا ہے، شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں: میں نے ۱۱۴۴ھ میں جب میرا قیام مدینہ منورہ میں تھا، اِس بات کا بار بار مشاہدہ کیا ہے، یعنی روح نبوی سے فیض پایا ہے۔(رحمۃ اللہ الواسعۃ:۴؍۳۴۵) شیخ الحدیث مولانا زکریاصاحبؒ لکھتے ہیں: علامہ سخاویؒ نے قولِ بدیع میں سلیمان بن سحیمؒ سے نقل کیا ہے: کہ میں نے خواب میں حضور اقدسﷺ کی زیارت کی،میں نے (۱) مسند احمد:۲؍۵۲۷، بذل: ۷؍۵۶۷۔ دریافت کیا یا رسول اللہ! یہ جولوگ حاضرہوتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں، آپ اس کو سمجھتے ہیں؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں سمجھتا ہوں اور اُن کے سلام کا جواب بھی دیتا ہوں، ابراہیم بن شیبانؒ کہتے ہیں کہ میں حج سے فراغ پر مدینہ منورہ حاضر ہوا اور میں نے قبر شریف کے پاس جا کر سلام عرض کیا تو میں نے حجرہ شریف کے اندر سے ’’وعلیک السلام‘‘کی آواز سنی، ملا علی قاریؒ کہتے ہیں: کہ اس میں شک نہیں کہ درود شریف قبر اطہر کے قریب پڑھنا افضل ہے، دور سے پڑھنے سے، اس لیے کہ قریب میں جو خشوع، خضوع اور حضورِ قلب حاصل ہوتا ہے وہ دور میں نہیں ہوتا، صاحب مظاہرحق اس حدیث پر لکھتے ہیں: یعنی پاس والے کا درود خود سنتا ہوں بلا واسطہ اور دور والے کا درود ملائکہ سیاحین پہنچاتے ہیں، اور جواب سلام کا بہر صورت دیتا ہوں۔