اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایسا ہوگا تو یقینا ہمارے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوگا۔ مصافحہ اعتدال سے کیجیے مصافحہ اظہارِ محبت اور استمرارِ محبت کی بنیاد ہے؛ لیکن مصافحہ کرتے وقت چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے مثلا: جس سے مصافحہ کرنا ہے وہ بہت جلدی میں ہے، ایسی صورت میں سلام پر اکتفاکرے، جس سے مصافحہ کرنا ہے، اُس کا ہاتھ اتنی زور سے نہ دبا دے کہ ہاتھ میں درد ہوجائے، کسی کو تکلیف پہنچانا منع ہے، بزرگ اور خدا رسیدہ لوگوں سے مصافحہ یقینا ایک شرف وسعادت کی بات ہے؛ لیکن مجمع کثیر ہو اور اُن کے پاس وقت کم ہو تو زیارت ودیدار اور سلام پر ہی اکتفا کرنا چاہیے، بسا اوقات ہم مسلمان ایسے مواقع پر حد ِاعتدال سے نکل جاتے ہیں، ایک مصافحہ کے لیے کسی مسلمان کو دھکا دے دیا، کوئی سامان توڑ دیا؛ مزید براں بار بار مصافحہ کرنے سے اس بزرگ ہستی کو تکلیف ہوسکتی ہے، کوئی بھی چیز اعتدال کے ساتھ اچھی لگتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: مصافحہ کا مقصداظہارِ محبت ہے، اورمحبت کے اظہار کے لیے ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے محبوب کو راحت ملے، مصافحہ تکلیف کا ذریعہ نہ بنے، کبھی ایسا ہوتا ہے، کوئی بزرگ کسی جگہ پہنچے تو پورا مجمع اُن بچارے ضعیف اور چھوئی موئی بزرگ پر ٹوٹ پڑتا ہے، ذہن میںیہ بات ہوتی ہے کہ ساری برکت ومغفرت اِن بزرگ کے مصافحہ میں ہے؛ لہٰذا بلا مصافحہ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے، چاہے وہ بزرگ دَب جائیں، گر جائیں یا کسی اور مصیبت کا شکار ہوجائیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک وعظ ہے، جو آپ نے رنگون(برما) کی سورتی مسجد میں کیا تھا، اُس وعظ میں لکھا ہے: کہ جب حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وعظ سے فارغ ہوئے تو مصافحہ کرنے کے لیے مجمع کا اتنا زور پڑا کہ حضرت گرتے گرتے بچے، یہ حقیقی محبت نہیں ہے، یہ محض صورتِ محبت ہے؛ اس لیے کہ محبت کو عقل چاہیے کہ جس سے محبت کی جاری ہے ، اُس کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کیا جائے اور اُس کو دکھ اور تکلیف سے بچایاجائے، یہ ہے حقیقی محبت۔(اصلاحی خطبات:۶؍۱۷۸) حضرت تھانویؒ کی انکساری - بڑوں کے لیے ایک سبق اوپر مفتی تقی عثمانی صاحب نے حضرت تھانوی ؒکے وعظ کا حوالہ دیا ہے؛ جس کا سبق یہ ہے کہ مصافحہ اعتدال سے کرنا چاہیے؛ لیکن اس وعظ کاایک دوسرا پہلو بھی ہے، جو یہاں نقل کیا جارہا ہے، یہ وعظ ’’ملتِ ابراہیم‘‘ کے نام سے ہے جو خطبات حکیم الامت میں چھَپا ہوا ہے، اور تقریبا ۸۷ صفحات پر محیط ہے، کاتب ِوعظ نے وعظ کے اخیر میں جو کچھ لکھا ہے درجِ ذیل ہے، جس سے حضرت تھانویؒ کی انکساری کا اندازہ ہوتا ہے؛ حالاں کہ وہ بڑے اصولی انسان تھے، ایسی بے اصولی عموماً نا پسند کرتے تھے، خیر کاتبِ وعظ کا آنکھوں دیکھا حال پڑھیے: الحمد للہ رنگون کا یہ پہلا واقعہ جو نہایت زور وشور کے ساتھ ڈھائی گھنٹہ تک ہوتا رہا، ختم ہوا، بفضلہ تعالی بہت زیادہ مجمع تھا، جس کاتخمینہ زائد از دو ہزار کیا گیا، سب لوگ نہایت متاثر تھے اور نہایت سکون کے ساتھ سنتے رہے؛ بعد وعظ بے حد اشتیاق کے ساتھ لوگوں نے مصافحہ کیا ایک، دوسرے پر گرتا تھا، بڑی مشکل سے وار آتا تھا، حضرت